اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کی جانب سے برادر عرب ملک مصر کی کوششوں کے بعد قومی مفاہمت کے لیے پہل کرتے ہوئے غزہ کی پٹی میں جماعت کی زیرنگرانی قائم کردہ انتظامی کمیٹی تحلیل کردی ہے مگر دوسری جانب صدر محمود عباس مفاہمت کا عمل آگے بڑھانے کے بجائے ٹال مٹول کی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ وہ پہلے امریکا کے دورے پر جا رہے ہیں۔ امریکا کے دورے سے واپسی کے بعد وہ فیصلہ کریں گے کہ آیا انہیں غزہ کی پٹی میں انتظامی امور سنھبالنے کے لیے وزیراعظم رامی الحمد اللہ کو احکامات صادر کرنا ہیں یا نہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق محمود عباس کی اس ٹال مٹول پرمبنی حکمت عملی اور رد عمل پر فلسطینی سیاسی حلقوں میں مایوسی پائی جا رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں کے رہ نماؤں کا کہنا ہے کہ تحریک فتح اور صدر محمود عباس نے حماس کی جانب سے قومی مفاہمت کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا اس گرم جوشی کے ساتھ جواب نہیں دیا جس کی توقع کی جا رہی تھی۔ محمود عباس کے انداز بیان اور رد عمل سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ ملک میں قومی مفاہمت کے لیے سنجیدہ نہیں۔ ایک طرف وہ حماس سے بار بار اپنی انتظامی کمیٹی تحلیل کرتے ہوئے تمام اختیارات قومی حکومت کو دینے کا مطالبہ کررہے تھے اور دوسری جانب اب حماس نے انتظامی کمیٹی تحلیل کی تو انہیں امریکا کا دورہ یاد آگیا۔
فلسطین کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ’وفا‘ کے مطابق صدر محمود عباس جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کے لیے امریکا جا رہے ہیں۔ اس دورے میں ان کی امریکی صدر اور دیگر عالمی رہ نماؤں سے بھی ملاقاتیں ہوں گی۔ صدر محمود عباس امریکا کےدورے سے واپسی پر اتھارٹی کا اعلیٰ سطحی اجلاس بلائیں گے۔ اس اجلاس وہ حماس کی طرف سے قومی مفاہمت کے لیے اقدامات پراپنے رد عمل کا فیصلہ دیں گے۔
خبر رساں ادارے کا کہنا ہے کہ محمود عباس کو امریکا کی زیرنگرانی قومی مفاہمت کے لیے ہونے والی کوششوں پر اطمینان ہے اور انہوں نے حماس کی جانب سے انتظامی کمیٹی تحلیل کیے جانے کا خیر مقدم کیا ہے۔ اس کے ساتھ غزہ میں تمام امور قومی حکومت کو دینے اور پارلیمانی اور صدارتی انتخابات کے لیے حماس کی آمادگی پر بھی خوشی کا اظہار کیا ہے۔