اسرائیلی فوج کا شمار دنیا کی چوتھی بڑی فوج کے طور پر ہوتا ہے۔ صہیونی ریاست کے وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیار، اس کے رعب، طاقت کا گھمنڈ اور ایک ہی وقت میں کئی کئی ملکوں کے خلاف جنگ میں کامیابی وکامرانی کے دعوے ایک طرف طرف مگر دنیا کی یہ چوتھی بڑی فوج ننھے منے فلسطینی بچوں کے ہاتھوں میں موجود پلاسٹک کے کھلونوں سے خائف ہے۔ یہ اسی خوف کا نتیجہ ہے کہ صہیونی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے اور فلسطین کے دوسرے علاقوں میں دکانداروں کو احکامات جاری کیے ہیں کہ وہ بچوں کو ہتھیاروں کی شکل کے کھلونے فروخت کرنا بند کردیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حال ہی میں صہیونی فوج نے مقبوضہ مغربی کنارے کے شہر رام اللہ اور دوسرے شہروں میں بازاروں میں ایک پمفلٹ تقسیم کیا۔ یہ پمفلٹ دراصل ایک نوٹس تھا جس میں حکم دیا گیا تھا کہ فلسطینی دکاندار بچوں کو ہتھیاروں کی شکل کے تمام کھلونے فروخت کرنا بند کردیں۔ نوٹس ملنے کے بعد بھی کھلونا ہتھیاروں کی فروخت جاری رکھنے والے دکانداروں کو سنگین نتائج کی دھمکیاں دی گئی تھیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے قارئین جانتے ہیں کہ فلسطینی بچوں کو ہتھیاروں کی شکل کے کھلونے فروخت کرنے سے روکنے کے پیچھے دراصل صہیونی ریاست کا وہ خوف ہے جو اس کی رگ و پے میں سرایت کیے ہوئے ہے۔
ننھے فلسطینیوں کا خوف
جب معاملات اس حد تک جا پہنچیں کہ دنیا کی چوتھی بڑی فوج بچوں کو پلاسٹک کے کھلونے فروخت کرنے پر پابندی لگائے تو صاف ظاہر ہے کہ اس فوج کو بچوں سے خوف ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر عبدالستار قاسم نے بچوں کو کھلونا نما ہتھیار فروخت کرنے پر پابندی کے پیچھے اسرائیل کا وہ خوف ہے جس کا اظہار مختلف شکلوں میں ہوتا ہے۔
صہیونی ریاست اور اس کے نام نہاد سیکیورٹی ادارے دن رات صہیونیوں کو تحفظ فراہم کرنے میں سرگرم ہیں مگر اس کے باوجود وہ صہیونیوں کو مکمل تحفظ نہیں دلا سکے ہیں۔ وہ جانتے ہیں کہ فلسطینی بچوں کے ہاتھوں میں یہ کھلونے نہیں بلکہ ان کے مستقبل کی جنگی اور جہادی تیاریوں کا حصہ ہے۔ فلسطینی بچوں کے ہاتھ میں پلاسٹک کا پستول تھما کر اسے مستقبل کے لیے ایک مجاھد کے طور پر تیار کرنے کا آغاز کیا جا رہا ہے۔ یہی وہ خوف ہے جو اسرائیلی فوج کو فلسطینی بلچوں کو کھلونا ہتھیار فروخت کرنے سے روکتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر القاسم نے کہا کہ ایک حملہ آور اور غاصب دشمن کو ہمیشہ دوسری قوم سے خوف لاحق رہتا ہے۔ صہیونیوں کو اندازہ ہے کہ فلسطینی انہیں کسی صورت میں معاف نہیں کریں گے۔ وہ فلسطینیوں میں مزاحمت کے جذبات بیدار ہونے سے روکنے کے لیے بچوں میں کھلونا ہتھیاروں کی تقسیم روکتے ہیں۔
مزاحمتی سوچ
فلسطینی تجزیہ نتار ایمن الفرفاتی شاطر کا کہنا ہے کہ اسرائیل کے لیے سب سے بڑی پریشانی فلسطینیوں کی مزاحمتی سوچ ہے۔ فلسطین کے بچے بچے میں مسلح جدو جہد کے جذبات موجود ہیں۔ اسرائیل نہیں چاہتا کہ فلسطینیوں کی نئی نسل کے ہاتھ میں کھلونا ہتھیار ہوں۔ کھلونا ہتھیار ان بچوں میں مزاحمت کے جذبات پیدا کرتے ہیں اور ایسا کرنا اسرائیل کو کسی قیمت پر گوارا نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل فلسطینیوں میں مزاحمتی سوچ ختم کرنے کے لیے بچوں کو ایسے کھلونوں سے دل بہلانے سے بھی منع کرتے ہیں جو کل کو حقیقی معنوں میں دشمن کے خلاف ہتھیار اٹھا کر میدان میں نکلیں گے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ڈاکٹر عبدالستار قاسم کا کہنا تھا کہ جب کوئی فلسطینی بچہ مزاحمتی ماحول میں تربیت پا کر جوان ہوتا ہے تو وہ قابض دشمن کے ملک وقوم پر قبضے کے خلاف موثر انداز میں مزاحمت کرتا اور دشمن کو للکارتا ہے۔