جمعه 15/نوامبر/2024

کیا اسرائیل فلسطینیوں سے قیدیوں کے تبادلے کے لیے تیار ہے؟

جمعرات 7-ستمبر-2017

اسرائیلی سیاسی اور ابلاغی حلقوں میں فلسطینیوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی ممکنہ ڈیل کی باتیں بڑی شدو مد کے ساتھ جاری ہیں۔ کیا واقعی ہی اسرائیل ’گیلاد شالیت‘ ڈیل کی تاریخ دہرا رہا ہے یا محض ٹال مٹول کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔ عین ممکن ہے کہ اس بار اسرائیل کو قیدیوں کے تبادلے کی کسی بھی ڈیل کے لیے بھاری قیمت ادا کرنا پڑے۔ اس بار اسرائیل حماس کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل کے لیے خفیہ ادارے ‘شاباک‘ کے کسی اعلیٰ اختیاراتی افسر کو تعینا کرسکتا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین نے فلسطینی مزاحمت کاروں اور اسرائیل کے درمیان قیدیوں کی ممکنہ ڈیل کے امکانات اور خدشات پر روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسرائیلی حکومت نے غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئے زندہ یا مردہ فوجیوں کی بازیابی کے لیے لیو لوٹان کی جگہ ایک نئے عہدیدار کو اس معاملے کا انچارج مقرر کیا جا رہا ہے۔ ویسے تو لیور لوٹان کا قیدیوں کے تبادلے کی ڈیل میں ناکامی کے بعد عہدہ چھوڑنا اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور وزیردفاع آوی گیڈور لائبرمین کی ناکامی کا واضح ثبوت ہے۔

مناسب متبادل

اسرائیلی فوج اور حکومت کے قریب سمجھی جانے والے عبرانی نیوز ویب پورٹل ’’وللا‘‘ کے مطابق جس شخص کو لیور لوٹان کی جگہ قیدیوں کے امور کا نیا نگران مقرر کرنے تجویز کیا گیا ہے وہ وزیر دفاع لائبرمین کے زیادہ قریب اور ان کا پسندیدہ افسر ہے۔

عبرانی ویب سائیٹ نے اس مجوزہ عہدیدار کا نام تو نہیں بتایا تاہم اتنا لکھا ہے کہ اس کا نام انگریزی کے حرف A  سے شروع ہوتا ہے اور وہ خفیہ ادارے’شاباک‘ کا افسر ہے۔ اسے غزہ جنگ میں لاپتا ہونے والے فوجیوں کی بازیابی کے لیے لیور لوٹان کی جگہ تعینات کیا جائے گا۔

مذکورہ افسر غرب اردن اور بیت المقدس میں انٹیلی جنس کا اہم ترین عہدیدار رہ چکا ہے۔ وہ جلد ہی ریٹائر ہوجائے گا جس کے بعد اسے نیتن یاھو کی منظوری سے قیدیوں کے تبادلے کے معاملے کا سربراہ مقرر کیا جائے گا۔

جنگ یا مذاکرات

ویب سائیٹ ’وللا‘ کو دیے گئے انٹرویو مین لائبرمین نے کہا کہ قیدیوں کے تبادلے کے لیے ہمارے سامنے دو آپشن ہیں۔ یا تو فلسطینیوں کے سامنے جھکنا پڑے یا ان کے خلاف جنگ پر مجبور ہوں۔ چاہے اسرائیل غزہ کے سامنے جھکے یا غزہ کو اسرائیل کے سامنے جھکنا پڑے دونوں صورتوں میں صبر اور تحمل کا مظاہرہ کرنا پڑے گا۔

لائبرمین جب یہ انٹرویو دے رہے تھے تل ابیب میں ھبیما چوک میں 500 افراد غزہ میں 2014ء سے جنگی قیدی بنائے گئے اہلکار ابراہام منگسٹو کی بازیابی کے لیے مظاہرہ جاری تھا۔

مغوی فوجی کے بھائی ایلان منگسٹو نے کہا کہ حکومت نے ہمیں تین سال سے اندھیرے میں رکھا ہوا ہے۔ ہم ایک رات بھی سکون کی نیند نہیں سو سکے۔ ہمارے گھر کی تمام خوشیاں غارت ہوچکی ہیں۔ آج یہ تمام لوگ ہم سب یہاں اس لیے جگہ جمع ہیں کہ ہمارے بھائی کو غزہ میں فلسطینیوں کی قیدیوں سے رہائی دلا کر اسے گھر واپس لایا جائے۔

حکومتی لاپرواہی

اسی سیاق میں عبرانی ٹی وی 2 نے ابراہام منگسٹوکے اہل خانہ سے بات کی اور ساتھ ہی حکومتی عہدیداروں کا موقف بھی لیا۔

مغوی فوجی اہلکار کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ حکومتی نمائندے نے ان کے ساتھ کوئی دیڑھ سال قبل رابطہ کیا تھا۔ اس کے بعد وزیراعظم یا وزیر دفاع کے دفتر سے کوئی رابطہ نہیں ہوا ہے۔

اس سے قبل حکومتی عہدیداروں سے ہونے والی بات چیت میں ہمیں اجازت دی گئی تھی کہ ہم میڈیا میں ہرطرح کی بات کرسکتے ہیں۔ اس کے بعد ہمیں عملی احتجاج سے بھی روکا جا رہا ہے۔ آج ہم ھبیما چوک میں احتجاج پرمجبور ہوئے ہیں۔ کل کو کسی دوسری جگہ احتجاج کریں اور دھرنا دیں گے۔

عبرانی ٹی وی کے مطابق شاباک کے سابق چیف یوفال ڈیسکین کا کہنا ہے کہ وہ حکومتی عہدیداروں اور ابراہام منگسٹو کے اہل خانہ کے درمیان رابطہ کراسکتے ہیں اور مغوی کی بازیابی میں مدد کرسکتے ہیں۔ ڈیسکین کا کہنا ہے کہ مغوی فوجیوں کے اہل خانہ حقیقی پریشانی کا شکار ہیں۔ ان کی اپنے پیاروں کی بازیابی کے لیے جدو جہدو آئینی ہے۔ ان کی مدد کی جانی چاہیے۔

ممکنہ ڈیل

اسرائیلی امور کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ غزہ جنگ کے بعد اسرائیل کا سیاسی اور سیکیورٹی نظام سخت ترین اندرونی دباؤ کا شکار ہے۔ اس جنگ کے منفی اثرات آج تک صہیونیوں کا تعاقب کررہے ہیں۔ جنگ کے ذریعے غزہ میں جنگی قیدی بنائے گئے فوجیوں کی بات کرنا الگ ہے مگرایسی کوئی بھی حماقت اسرائیل کو ایک نئی مشکل سے دوچار کرسکتی ہے۔ بار بار اپنے بیانات بدلنے والے وزیردفاع آوی گیدور لائبرمین بھی جانتے ہیں کہ انہیں آخر کار فلسطینیوں کے ساتھ قیدیوں کے تبادلے ہی کی ڈیل کرنا ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ شاباک کے اعلیٰ افسر کو لیور لوٹان کی جگہ متعین کرنا اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ صہیونی ریاست اپنے سابقہ ہٹ دھرمی پرمبنی موقف سے پسپائی اختیار کررہی ہے۔

علامتی طور پر ’A‘ کے حرف سے بتائے جانے والے شاباک کے نئے عہدیدار کو قیدیوں کے امور کا انچارج مقرر کرنا اس بات کا اشارہ ہے کہ صہیونی ریاست قیدیوں کے تبادلے کے لیے کوئی ڈیل کرنے میں سنجیدہ ہے۔

اسیران کے تبادلے کے معاملے کے نگران کی تبدیلی عوامی دباؤ کا بھی واضح ثبوت ہے۔

مختصر لنک:

کاپی