برطانیہ کی پولیس نے آج سے 30 سال پہلے لندن میں قتل ہونے والے فلسطینی خاکہ ساز[کارٹونسٹ] ناجی العلی کے قتل کی تحقیقات شروع کی ہیں۔ برطانوی پولیس کو توقع ہے کہ وہ تیس سال کے بعد زیادہ بہتر انداز میں اس کیس کی تحقیقات کرپائے گی۔ تاہم اتنی تاخیر سے اس کیس کی تحقیقات پر ماہرین سوالات بھی اٹھا رہے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق برطانوی پولیس کی طرف سے ایک عمومی پیغام جاری کیا گیا ہے جس میں عوام الناس سے کہا گیا ہے کہ جس کسی کے پاس فلسطینی کارٹونسٹ ناجی العلی کے قتل کے بارے میں معلومات ہوں وہ پولیس کو اس کے بارے میں مطلع کرے۔
خیال رہے کہ آج سے تیس سال قبل 22 جولائی 1987ء کو مغربی لندن میں نامعلوم افراد نے فلسطینی کارٹونسٹ ناجی سالم حسین العلی پر اندھا دھند فائرنگ کی تھی جس کے نتیجے میں وہ شدید زخمی ہوگئے تھے۔ انہیں شدید زخمی حالت میں اسپتال منتقل کیا گیا مگر وہ جاں بر نہ ہوسکے اور انتقال کرگئے۔ اس وقت ان کی عمر 51 برس تھی۔ قتل سے ایک ماہ قبل انہوں نے مشرق وسطیٰ کی صورت حال کے بارے میں اخبارات میں تنقیدی کارٹون شائع کیے تھے جن میں صہیونی ریاست کے مظالم کو اجاگر کیا گیا تھا۔ ان کارٹونوں کی اشاعت کے بعد ناجی العلی کو مسلسل قتل کی دھمکیاں مل رہی تھیں۔
’یورو نیوز‘ ویب سائیٹ کے مطابق متقول العلی کے بیٹے اسامہ کا کہنا ہے کہ برطانوی پولیس کا ان کے والد کے قتل کی تحقیقات کا اب اعلان حیران کن ہے۔ انہیں تیس سال قبل قتل کیا گیا۔ ان کا خاندان بار بار برطانوی حکومت سے ناجی العلی کے بہیمانہ قتل کی منصفانہ تحقیقات کا مطالبہ کرتا رہا ہے۔ مگر ان کے مطالبات پر کوئی توجہ نہیں دی گئی۔
لندن پولیس کی طرف سے جاری کردہ سرکلر میں کہا گیا ہے کہ ناجی العلی پر قاتلانہ حملہ کرنے والے دونوں مرکزی ملزمان کے بارے میں اگر جانتے ہوں تو ان کی نشاندہی میں پولیس کی مدد کریں۔