فلسطین میں انسانی حقوق کی تنظیمیں آئے روز غیرقانونی یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کےحوالے سےرپورٹس شائع کرتی ہیں۔ فلسطین میں سرکاری سطح پر جاری کی گئی ایک رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سال 2017ء آغاز سے اب تک فلسطین میں یہودی آباد کاری کے منصوبوں پراندھا دھند کام کیا جا رہا ہے۔ اس طرح رواں سال کے دوران غیرقانونی یہودی آباد کاری میں غیرمسبوق اور غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق تنظیم آزادی فلسطین کے شعبہ دفاع اراضی و مزاحمت یہودی آباد کاری کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیل کی سول ایڈ منسٹریشن نےکی طرف سے حال ہی میں یہ اعتراف کیا گیا ہے کہ غرب اردن میں فلسطینیوں کی نجی اراضی پ یہودی آبا د کاروں کے 3455 کے مکانات تعمیر کیے گئے ہیں۔ یہ تمام مکانات فلسطینی شہریوں سے اسرائیلی فوج کی طرف سے غصب کی گئی اراضی پرتعمیر کیے گئے ہیں۔ اسرائیلی فوج نے یہ اراضی فوجی کیمپوں اور چھاؤںیوں کے لیے فلسطینیوں سے چھین لی تھی مگر اب اسے یہودی آباد کاروں کو بسانے کے لیے استعمال کی گئی ہے۔
خیال رہے کہ حال ہی میں صہیونی ریاست نے جنوبی بیت لحم میں غوش عتصیون میں مزید تین یہودی کالونیاں تعمیر کرنا شروع کی ہیں۔ یہ تینوں کالونیاں اس اراضی پرتعمیر کی جا رہی ہیں جس کی اراضی صہیونی فوج نے غصب کی تھی اور کہا گیا تھا کہ وہ اس اراضی کو فوجی مقاصد کے لیے استعمال کرے گا۔
فلسطینی دفتر برائے دفاع اراضی کا کہنا ہے کہ اسرائیلی حکومت نے حکومت ایک نیا قانون منظور کرنے کی کوشش کررہی ہے جس کے تحت فوجی مقاصد کے لیے قبضے میں لی گئی اراضی کو یہودی آباد کاری کے لیے استعمال میں لانے کی راہ ہموار ہوجائے گی۔