ہر صاحب اولاد والدین کی یہ دلی تمنا ہوتی ہے کہ وہ اپنی اولاد کو جوان، صحت مند، تندرست و توانا، بیماریوں سے محفوظ ہوں اور ان کی شادی بیاہ اپنی موجودگی میں کے انجام پائے۔ مگر غزہ کی پٹی میں ایک میاں بیوی کے ہاں ان کے جواں سال دو بیٹے اور ایک بیٹی اچانک کسی ایسی انوکھی بیماری کا شکار ہوئے کہ چلتے پھرتے معذور ہو کر رہ گئے ہیں۔ ان کے والدین کی پریشانی دیکھی نہیں جاتی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق معذور ہونے والے تینوں بچوں کے والد کا کہنا ہے کہ ان کے بچے پندرہ اور سولہ سال کی عمر تک تو ٹھیک تھے، مگر اس کے بعد وہ بہ تدریج کسی ایسے انوکھے جسمانی عارضے کا شکار ہوئے کہ وہ چل پھر نہیں سکتے۔
مجسم غم والم 45 سالہ ابو خمیس عاشور نے کہا کہ انوکھی بیماری نے اس کے ایک نہیں بلکہ تین بیٹوں کو جسمانی طور پرمعذور کر دیا ہے۔ ان کے یکے بعد دونوں بیٹےاور بیٹی اس بیماری کا شکار ہوئے اور آج وہ بستر سے لگ گئے ہیں۔ وہ غزہ کی پٹی میں مقامی اسپتالوں میں دستیاب طبی سہولیات کو استعمال کرچکا ہے مگریہاں ان کا علاج نہیں۔ بیرون ملک لے جانے کے لیے رفح گذرگاہ کے کھلنے کا انتظار کیا مگر اب ہم صرف دعا ہی کرسکتےہیں۔
والد نے غم زدہ لہجے میں مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس کے تین بچے خمیس، جہاد اور نور سالہ سال کی عمر کو پہنچ کر جسمانی معذوری کا شکار ہوگئے۔ یہ یک دم نہیں ہوا۔ پہلے ان کے جسموں میں کمزوری پیدا ہونا شروع ہوئی اور ان کے لیے کھڑے ہو کرچلنا مشکل ہوتا ہے۔ اب وہ کھڑے بھی نہیں ہوسکتے۔ حتیٰ کہ ان کی قوت گویائی بھی پراس کے منفی اثرات مرتب ہوئے ہیں۔
ابو خمیس نے بتایا کہ سب سے پہلے اس کے بڑےبیٹے خمیس نے اسے جسم میں کمزوری کی شکایت کی۔ ہم نے اسے چیک اپ کریا کوئی خاص فرق نہ پڑا، اس کا وزن مسلسل کم ہوتا گیا اور آخر کار وہ اتنا نالاغر ہوگیا کہ اس کا چلنا پھرنا محال ہوگیا۔
غزہ کی پٹی کے تمام اسپتالوں میں اسے چیک کرایا گای مگر خمیس کے جسم کا نچہ حصہ کم زور ہوتا گیا۔ یہاں تک کہ مکمل طور پر مفلوج ہوگیا۔
اس کے بعد اس کا دوسرا بیٹا جہاد جب سولہ سال کا ہوا تو اسے بھی اپنے بھائی کی طرح جسم میں کمزوری اور تکلیف کی شکایت ہونا شروع ہوگئی۔ اسے بھی انواع اقسام کی ادویات دی گئی مگر کوئی آفاقہ نہ ہوا۔
اس نے اپنے بیٹوں کو اسرائیل میں علاج کے لیے 9 بار لے جانے کی کوشش کی مگر صہیونی انتظامیہ نے ہربار اسے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں قائم اسپتالوں میں جانے کی اجازت نہ دی۔
ان سے چھوٹی بیٹی نور سولہ سال کو پہنچی تو بھائیوں کی طرح اسےبھی کمزوری لاحق ہوئی۔ آج وہ بھی جسمانی طور پر معذور ہوچکی ہے۔ وہ کھڑی ہوسکتی ہے اور نہ ہی کوئی کام کاج کرسکتی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے نور اپنے آنسوؤں پر قابو نہ رکھ سکی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی۔ اس کی اس کیفیت کو دیکھ کر اس کے بھائیوں اور والدین کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے۔
نور نے اپنے دکھ اور الم پرقابو پاتے ہوئے لڑکھڑاتی آواز میں کہا کہ وہ ہنسی خوشی اسکول جاتی اور گھر کے کام کاج میں اپنی ماں کا ہاتھ بٹاتی تھی مگر سولہ سالہ کی عمر کو پہنچ کر بھائیوں کی طرح اسے بھی یہ انوکھی بیماری لگ گئی۔
اس نے بتایا کہ آہستہ آہستہ اس کے جسم میں کمزوری نے ڈیرے ڈالے۔ اس کے بعد اس کا جسمانی توازن بگڑنے لگا۔ پاؤں مڑ گئے۔ میں اپنی ہم جماعت بچیوں کو اسکول جاتے اور چلتے پھرتے دیکھ کر خون کے آنسو رو دیتی ہوں اور ایسے لگتا ہے کہ میں مقتل ہوں میں جہاں میرے جسمانی اعضاء کاٹ دیے گئے ہیں۔
نور نے کہا کہ شروع شروع میں اسے امید تھی کہ وہ اپنے بھائیوں کی طرح معذور نہیں ہوگی مگر بیماری کے چار ماہ گذرنے کے بعد مجھے اندازہ ہوا کہ اب میرا انجام بھی بھائیوں کی طرح ہمیشہ ہمیشہ کی معذوری ہوگی۔
بڑے بیٹے خمیس نے اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہا کہ وہ خان یونس کی سڑکوں پر تیز چلنے والے بچوں میں شمار ہوتا تھا مگر سولہ سال کی عمر میں اسے ایسا عارضہ لاحق ہوا کہ آج وہ اپنے سہارے پر کھڑا بھی نہیں ہوسکتا ہے۔
معذور بچوں کے والد ابو خمیس نے بتایا کہ اس کے تین بچے اور تین بچیاں ہیں۔ ان میں سے بڑے تینوں بچے بچیاں معذور ہوچکے ہیں جب کہ ان سے چھوٹوں کی عمریں ابھی سولہ سال سے کم ہیں۔ انہیں ڈر ہے کہ ان کے دوسرے بچے بھی اسی طرح معذور نہ ہوجائیں۔ ان سے چھوٹے بیٹے کریم کی عمر 14 سال ، بیٹی ندا کی 12 اور یاسمین کی 10 سال ہے۔