ویسے تو فلسطین کے علاقے غزہ کی پٹی کے دوملین فلسطینی ایک ہی وقت میں اسرائیل، فلسطینی اتھارٹی اور مصر کی طرف سے جاری ناکہ بندی کی مصیبت کا شکار ہیں مگر ان فلسطینیوں کا حقیقی المیہ دیکھنا ہوتو غزہ کی اکلوتی بین الاقوامی راہ داری’رفح‘ پر ذلیل ورسوا ہوتے دیکھ کر اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق رفح گذرگاہ اس قصبے کی نام سے موسوم ہے جس میں یہ واقع ہے۔ رفح قصبہ غزہ کی پٹی اور مصر دونوں میں تقسیم ہے۔ اس قصبے کے درمیان سرحد پارآمد ورفت کے لیے استعمال ہونے والی گذرگاہ ’رفح گذرگاہ‘ کا نام دیا جاتا ہے۔
یہ گذرگاہ سنہ 2013ء میں اس وقت غزہ کے عوام کی آمد ورفت کے لیے بند کردی گئی تھی جب مصر میں منتخب عوامی حکومت کا تختہ الٹ کر فوج نے اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا تھا۔ مصرمیں اقتدار میں آنے والی فوجی حکومت اور اس کے بعد فوج کی چھتری تلے قائم حکومتوں نے اس گذرگاہ کو محض اس لیے بند کیے رکھا کہ غزہ کی پٹی کا انتظامی کنٹرول اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے پاس ہے۔ مصری حکومت نے حماس پر قاہرہ کے اندرونی معاملات میں مداخلت کا من گھڑت بہتان تھوپا اور اس الزام کے تحت حماس اور جماعت کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کو دہشت گرد قرار دیا گیا۔ اگرچہ حماس اور مصری حکومت کے درمیان گذشتہ کچھ عرصے سے رابطے بحال ہوئے ہیں۔
مصری حکومت کی طرف سےحماس کو یقین دلایا گیا ہے کہ وہ سرحد پرحالات سازگارہوتے ہی رفح گذرگاہ کو کھول دے گی مگر ایسا ابھی عملا نہیں ہوا۔ حال ہی میں رفح گذرگاہ کو غزہ کے عازمین حج کے لیے تین دن تک کھلا رکھا گیا۔ اس سے قبل کئی ماہ سے یہ گذرگاہ بند ہے۔
قریبا تیس سے چالیس ہزار فلسطینی شہری ایسے ہیں جو غزہ سے باہر اپنے کاروبار، تعلیم یا دوسرے مقاصد کے لیے جانا چاہتے ہیں۔ بڑی تعداد میں دوسرے ملکوں میں موجود فلسطینی غزہ صرف اس لیے نہیں آسکتے کہ رفح گذرگاہ بند ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگاروں کا کہنا ہے کہ رفح گذرگاہ پرجس طرح انسانیت کی کھلی تذلیل کی جاتی ہے اس کی مثال نہیں ملتی۔ یہ گذرگاہ حقیقی معنوں میں فلسطینیوں کے جذبات کا ذبحہ خانہ ہے جہاں ان کے جذبات کی توہین اورتذلیل کی جاتی ہے۔ یہاں باہر جانے کے لیے معذور، بیماری، بوڑھے، بچے، عورتیں نہایت کسمپرسی کے عالم میں دیکھی جاتی ہیں۔
حال ہی میں جب مصری حکام نے رفح گذرگاہ کو دو روز کے لیے دو طرفہ آمد ورفت کے لیے کھولنے کا اعلان کیا تو گذرگاہ پرعلی الصباح ہی فلسطینیون کا تانتا بندھ گیا۔
شہریوں کے تاثرات
رفح گذرگاہ پربیرون ملک جانے کے منتظر کسی بھی فلسطینی سے بات کریں تو وہ ایک دکھ بھری داستان کھول کر بیٹھ جائے گا۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ زندگی کے مشکل اور کٹھن ایام ان کے رفح گذرگاہ کے کھلنے کے انتظار اور یہاں آنے کے بعد کی مشکلات میں دیکھے جاتے ہیں زندگی میں اور کبھی نہیں دیکھے گئے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے ایک معمر فلسطینی نیفین ابو عزب نے اپبی سفیر بیگ کے ساتھ ٹیک لگاتے ہوئے کہا کہ اس نے متحدہ عرب امارات جانا ہے۔ وہ کئی گھنٹے سے اپنا نام پکارے جانے کی منتظر ہے مگر اس کا نام نہیں لیا گیا۔ ایسے لگتا ہے کہ سفری دستاویزات مکمل ہونے کے باوجود اب بھی اس کی باری نہیں آئی گی اور طویل انتظار کے بعد اسے پھر واپس غزہ ہی میں لوٹنا پڑے گا۔
اس کاکہنا ہے کہ میں ایک سال قبل اپنے اقارب سے ملنے غزہ آئی اور یہاں آکر بند ہوگئی۔ اس دوران جب بھی رفح گذرگاہ کھولنے کی اطلاع ملی تویہاں پہنچی مگر آج تک میری بیرون ملک سفر کی باری نہیں آسکی۔
ام احمد نے کہا کہ اس کا فلسطینی قیام کی مدت ختم ہوئے چھ ماہ ہوگئے۔ اس دوران اس نے تین بار اپنے اقامہ کی تجدید کرائی جس پربھاری رقم بھی خرچ ہوئی۔ وہ مسلسل انتظار میں ہے کہ اسے کب غزہ سے باہرجانے کی اجازت دی جائے گی۔
ایک اور فلسطینی خاتون نے متحدہ عرب امارات کو چھوڑ کرغزہ کی پٹی میں چار سال قبل تعلیم کے حصول کے لیے سفرکیا۔ وہ اپنے چار بچوں کے ہمراہ غزہ آئی اور واپسی کا راستہ اس پربھی بند ہوگیا۔ اس کا کہنا ہے کہ وہ اپنے چار بچوں کے ہمراہ غزہ میں بند ہے جب کہ اس کا شوہر اورگھر کے دیگر افراد متحدہ عرب امارات میں ہیں۔ خاندان تقسیم ہو کر رہ گیا ہے مگر ہماری مدد کرنے والا کوئی نہیں۔ فلسطینی انتظامیہ کی طرف سے کاغذات اور سفری دستاویزات مکمل ہیں مگر مصری حکام جان بوجھ کر تاخیر کا شکار کرتے ہیں۔
ایک اور خاتون حمادہ نے کہا کہ اسے توقع ہے کہ رفح گذرگاہ کی بندش کا عرصہ اب زیادہ عرصہ نہیں رہے گا۔ غزہ میں تیس ہزار سے زاید فلسطینی جو ابھی تک بیرون ملک سفر نہیں کرسکے ہیں۔ وہ جلد اپنی اپنی منازل کو روانہ ہوں گے۔
رفح گذرگاہ کھولنے کا مطالبہ
گذرگاہ پرموجود ہرفلسطینی کا پہلا اورا ٓخری مطالبہ یہی ہے کہ گذرگاہ کو ان کی سفری آمدورفت کے لیے کھولا جائے۔
وہیل چیئرپربیٹھے ایک پچاس سالہ مریض نے کہا کہ وہ علاج کے لیے مصر جانا چاہتا ہے۔ ڈاکٹروں نے بھی اسے مصر میں علاج کے لیے جانے کی تجویز دی ہے۔ مگر گذرگاہ بند ہے اور وہ بیرون ملک علاج سے محروم رہے گا۔
ایک اور فلسطینی العطار کو سات ماہ قبل دماغ کا فالج ہوا جس کے بعد اس کا چلنا پھرنا محال ہوگیا۔ وہ بھی مصر میں علاج کے لیے جانا چاہتا ہے مگر گذرگاہ پراس کے جذبات کا بھی استحصال کیا جاتا ہے۔
ان تمام فلسطینی مردو خواتین، بوڑھوں اور بچوں نے پرزور مطالبہ کیا کہ مصر انسان دوستی کا مظاہرہ کرتے ہوئے غزہ میں پھنسے شہریوں کے لیے بیرون ملک سفر کے راستے کھول دے۔