فلسطین کے ممتاز دانشور، صحافی اور مصنف اور غزہ کی پٹی میں جامعہ الازھر میں سیاسیات کے پروفیسر ڈاکٹر ناجی شراب نے کہا ہے کہ اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے مصر سے تعلقات کے باب میں فراخ دلی کا مظاہرہ کرکے دانش مندی کا مظاہرہ کیا ہے۔ حماس اور مصر کے درمیان تعلقات کی بحالی سے غزہ کے عوام کو ریلیف ملے گا اور وہاں کے عوام کو درپیش مشکلات کم کرنے میں بالخصوص معاشی بحران، توانائی اور صحت کے مسائل کے حل میں مدد ملے گی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ڈاکٹرناجی شراب نے ان خیالات کا اظہار مرکزاطلاعات فلسطین کودیے گئے خصوصی انٹرویو میں کیا ہے۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حماس نے مصر کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے لچک کا مظاہرہ کرکے سیاسی بالغ نظری، سیاسی حقائق کے ادراک اور زمینی حقیقتوں کو سمجھنے کا ثبوت دیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ غزہ کی پٹی پر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے عاید کردہ پابندیوں کے نتیجے میں سب سے زیادہ نقصان تحریک فتح کا ہوا ہے۔ یہ تاثر غلط ہے کہ پابندیوں کے باعث حماس کو نقصان پہنچا ہے۔ سب سے زیادہ خسارہ خود تحریک فتح نےاٹھایا جسے فلسطینی اتھارٹی کی مکمل پشت پناہی حاصل ہے۔
ڈاکٹر ناجی نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے عوام کو درپیش بحرانوں نے حماس کو مزید عوام دوست بنا دیا۔ حماس کو ان مسائل اور بحرانوں سے نمٹنے کے لیے جدید اور غیر روایتی انداز فکر اپنانے کا موقع فراہم کیا جس کے نتیجے میں غزہ کے عوام کے مسائل کے حل میں مدد ملی ہے۔
فلسطینی سیاسی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ موجودہ انتشار کی فضاء میں فلسطین نیشنل کونسل کا اجلاس طلب کرنا حماقت ہے۔ جب تک تمام فلسطینی سیاسی قوتوں کو اعتماد نہیں لیا جاتا اس وقت تک نیشنل کونسل کا اجلاس بے معنی ہوگا۔ اگر فلسطینی اتھارٹی نیشنل کونسل کا یک طرفہ اجلاس منعقد کرتی ہے تواس کے نتیجے میں فلسطینیوں میں اختلافات کی خلیجی مزید گہری ہوگی۔ ملک موجودہ حالات میں مزید ایسے کسی احمقانہ سیاسی فیصلے کا متحمل نہیں۔ نیشنل کونسل کے تمام فیصلے باطل تصور کیے جائیں گے اور فلسطینی قوم کے نمائندہ طبقات میں محاذ آرائی کی کیفیت مزید تیز ہوجائے گی۔
ڈاکٹر ناجی شراب کے ساتھ ہونے والی بات چیت کو سوال وجواب کی شکل میں پیش کیا جا رہا ہے۔
**** فلسطینی نمائندہ جماعتوں میں عدم موافقت کے باوجود نیشنل کونسل کے اجلاس کے انعقاد کے بارے میں آپ کی کیا رائے ہے؟
ڈاکٹر ناجی شراب: میرے خیال میں فلسطینی قوم کے نمائندہ طبقات کی مشاورت کے بغیر نیشنل کونسل کا اجلاس طلب کرنا غلط فیصلہ ہوگا، اس کے نتیجے میں فلسطینیوں میں سیاسی اختلافات اور محاذ آرائی مزید شدت اختیار کرجائے گی۔
حماس اور اسلامی جہاد فلسطین کی دو اہم سیاسی جماعتیں ہیں۔ انہیں اعتماد میں لیے بغیر تحریک فتح کو یک طرف طورپر نیشنل کونسل کا اجلاس ہرگز طلب نہیں کرنا چاہیے۔ اگر ایسا کیا گیا تو یہ احمقانہ فیصلہ ہوگا جس کے نتیجے میں فلسطینیوں میں اختلافات کی خلیجی مزید گہری ہوجائے گی۔
****موجودہ حالات میں جب کہ فلسطینیوں میں اختلاف عروج پر ہیں نیشنل کونسل کا اجلاس طلب کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟۔
ناجی شراب:۔ میرے خیال میں فلسطینی اتھارٹی کچھ اہم سیاسی فیصلوں کے لیے نیشنل کونسل کے اجلاس کا سہارا لینا چاہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ فلسطینی اتھارٹی کی نئی قیادت کے لیے بھی نیشنل کونسل کا اجلاس اہمیت رکھتا ہے، مگر جب تک تنظیم آزادی فلسطین کے تمام اداروں کی تشکیل نو نہیں ہوجاتی اور نئی قیادت منتخب نہیں ہوتی اس وقت تک نیشنل کونسل کا اجلاس بے مقصد ہے۔
یہ امکان موجود ہے کہ نیشنل کونسل کا اجلاس طلب کرکے فلسطینی مجلس قانون ساز کی آئینی حیثیت کو کالعدم قرار دیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو یہ فلسطینی اتھارٹی کی سیاسی خود کشی ہوگی۔ حماس اور اسلامی جہاد جیسی جماعتیں پارلیمنٹ کو بائی پاس کرنے کی اجازت نہیں دیں گی۔ اس طرح فلسطینی اتھارٹی اور اس کے حامی گرپوں کی حریف سیاسی قوتوں کےساتھ ایک نئی محاذ آرائی شروع ہوسکتی ہے۔
جہاں تک اس سوال کا تعلق ہے کہ موجودہ حالات میں فلسطین نیشنل کونسل کا اجلاس کیوں بلایا جا رہا ہے تو شاید اس کا بہتر جواب یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور تحریک فتح ’حماس‘ اور فتح کے مںحرف گروپ دحلان کی بڑھتی قربت سے خائف ہے۔
محمد دحلان گروپ کے فلسطینی پارلیمنٹ میں 17 ارکان ہیں۔ اسی طرح مجموعی طور پرحماس کے ارکان پارلیمان کی تعداد دوسری جماعتوں کے ارکان سے زیادہ ہے۔ اس طرح حماس ، اسلامی جہاد اور دحلان مل کر ملک میں ایک نیا سیاسی اتحاد تشکیل دے سکتے ہیں جوتحریک فتح کی حکومت کے لیے خطرہ بن سکتا ہے۔ حماس اور دحلان کو دباؤ میں لانے کے لیے ایک طرف غزہ کی پٹی پر اقتصادی پابندیاں عاید کی جارہی ہیں اور دوسری طرف نیشنل کونسل کا اجلاس بلانے کی تیاریاں کی جا رہی ہیں۔
**** غزہ کی پٹی پر فلسطینی اتھارٹی کی عاید کردہ پابندیوں کو آپ کس طرح دیکھتے ہیں؟۔
غزہ کے عوام پر اسرائیل کی طرف سے پہلے ہی بدترین اقتصادی اور معاشی پابندیاں عاید ہیں۔ ایسے میں فلسطینی اتھارٹی بھی حماس کو دباؤ میں لانے کے لیے غزہ پر پابندیاں عاید کررہی ہے۔ مگر فلسطینی اتھارٹی کی یہ پالیسی کامیاب نہیں ہوگی۔ حماس فلسطینی قوم کی ایک مضبوط قوت ہے۔ حماس کے دور میں بھرتی کیے گئے ملازمین کو انتقام کا نشانہ بناتے ہوئے ان کی تنخواہیں بند کرنا، غزہ کے مریضوں پر سفری پابندیاں لگانا، بجلی کا بحران پیدا کرنا اگرچہ تمام حربے حماس کو نکیل ڈالنے کے لیے ہیں مگر اس کے نتیجے میں حماس کی مقبولیت میں اضافہ اور فلسطینی اتھارٹی کے خلاف غزہ کے عوام میں نفرت بڑھ رہی ہے۔
پابندیوں کا خطرناک پہلو یہ ہے اس میں سیاہ اور سفید خشک اور سب براہ راست متاثر ہو رہے ہیں۔ یہ پابندیاں فلسطینی اتھارٹی اور تحریک فتح کی عوام میں سیاسی ساکھ کو نقصان پہنچانے کا موجب بنیں گی۔ اس کے ساتھ ساتھ ایسے حربوں سے حماس اور دحلان گروپ کو تقویت ملے گی۔
**** حماس اور فتح میں قربت غزہ کو بحران سے نکالنے میں کس حد تک مدد گار ہوسکتی ہے؟
ناجی شراب: حماس نے دحلان کے ساتھ سیاسی مفاہمت کے لیے ہاتھ بڑھا کر سیاسی بالغ نظری کا مظاہرہ کیا ہے۔ حماس کی اس پالیسی سے ظاہر ہوتا ہے کہ جماعت تصادم گریز حکمت عملی کا مظاہرہ کررہی ہے۔ غزہ کی پٹی کے عوام کے مسائل کے حل کے لیے کسی سے دشمنی پالینے کا کوئی جواز بھی نہیں۔ حماس اور دحلان مل کر غزہ کی پٹی کے عوامی مسائل اور بحرانوں کے حل میں اہم کردار ادا کرسکتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ حماس اور دحلان غرب اردن میں بھی سیاسی اتحاد تشکیل دے کر صدر عباس اور تحریک فتح کو ایک نئی مشکل سے دوچار کرسکتے ہیں۔
دحلان کو علاقائی اور عالمی سطح پربھی اچھی خاصی پذیرائی حاصل ہے، مصر کی کوششوں سے حماس اور دحلان میں قربت انہیں فلسطینی میں مضبوط اتھارٹی بنا سکتی ہے۔
**** حماس اور مصر کے درمیان مفاہمت کس حد تک کامیاب ہوگی؟
ناجی شراب: حماس نے مصر کے ساتھ تعلقات کے قیام میں لچک کا مظاہرہ کرکے حقیقی سیاسی حکمت عملی اپنائی ہے۔ حماس کی اس پالیسی سے جماعت کے سیاسی ویژن، زمینی حقائق کے ادراک اور فلسطینیوں بالخصوص غزہ کے عوام کے لیے مصر کی اہمیت کے احساس کا اندازہ ہوتا ہے۔
حماس کو یہ اندازہ ہوگیا ہے کہ مصر فلسطینیوں کے درمیان تعلقات کی بحالی اور غزہ کے عوام کے مسائل کے حل کے حوالے سے محوری کردار ادا کرسکتا ہے۔ غزہ کے دو ملین لوگ انسانی، قومی، ملکی اور تاریخی طور پر مصر کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔
**** حماس اور مصر کے درمیان قربت کوآپ کیسے بیان کریں گے؟
ناجی شراب: میرا خیال ہے کہ مصر کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے لیے حماس کی طرف سے لچک کا مظاہرہ جماعت کی پالیسی میں تبدیل کا آئینہ دار ہے۔ حماس نے رواں سال ایک نئی پالیسی دستاویز جاری کی جس میں فلسطینیوں کی حامی قوتوں کے ساتھ مفاہمت کی پالیسی اپنانے کی بات کی گئی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ حماس نے اس پالیسی دستاویز کے بعد مصر کے ساتھ تعلقات کو از سرنو ترتیب دینا شروع کیا ہے۔
اس کے علاوہ غزہ کی پٹی کے ابتر معاشی حالات نے بھی حماس کو مصر سے قربت کا موقع دیا۔ اگر اس باب میں حماس کی طرف سے عجلت کی کوشش کی گئی ہے تو وہ غزہ کی پٹی کے بحرانوں اور معاشی مشکلات کا نتیجہ ہے۔
**** مستقبل قریب میں آپ فلسطین میں کس طرح کا سیاسی منظرنامہ دیکھ رہے ہیں؟
ناجی شراب: اس وقت فلسطینی کئی دھڑوں میں تقسیم ہیں۔ حماس نے مصر کے ساتھ تعلقات کو از سرنو ترتیب دینے کے ساتھ فتح کے مںحرف اور باغی گروپ کے سربراہ محمد دحلان کے ساتھ بھی مفاہمانہ پالیسی اپنائی ہے۔ میرا نقطہ نظر یہ ہے کہ حماس اور دحلان کے درمیان قربت کے ساتھ فلسطین میں ان دونوں کی فتح کے ساتھ محاذ آرائی شدت اختیار کرسکتی ہے۔
حماس اور دحلان کے درمیان مفاہمت کا ایک مثبت نتیجہ غزہ کی پٹی کے عوام کے لیے سامنے آئے گا۔ اگرحماس اور دحلان گروپ مل کر غزہ کی پٹی کا انتظام وانصرام سنھبالتے ہیں اور ان دونوں کو مصری حکومت کی طرف سے تعاون حاصل ہو اور رفح راہ داری کھلنے سے غزہ کے عوام کو ایک نئی زندگی جینے کا موقع ملے گا۔
رفح گذرگاہ صرف فلسطینیوں کی آمدو رفت کا ایک راستہ ہی نہیں بلکہ غزہ کے دو ملین لوگوں کے لیے ’لائف لائن‘ اور شہ رگ ثابت ہوسکتی ہے۔
**** کیا حماس غزہ کی پٹی کو ایک الگ تھلگ ملک بنانا چاہتی ہے؟
ناجی شراب: ہرگز نہیں، حماس ایسا سوچ بھی نہیں سکتی، تاہم غزہ کے عوام اور اداروں کو تقویت دینا حماس کی ترجیحات میں شامل ہے۔ میں یہ استفسار کرتا ہوں کہ غزہ کو کمزور کرنا کس کے مفاد میں ہے اور ایسا کون کرسکتا ہے؟۔ اس کا جواب واضح ہے۔ غزہ کے عوام اور یہاں کے مقامی اداروں کو مضبوط کرنا ہم سب کی ذمہ داری ہے۔ ہم غزہ کی پٹی کو الگ ریاست بنائے جانے کا تصور نہیں کرسکتے۔ غزہ کو فلسطین کا حصہ رکھنا اسرائیل کے زوال کے لیے ضروری ہے۔