فلسطین میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور ماہرین انسانی حقوق نے سرکاری ملازمین کی جبری ریٹائرمنٹ کے رام اللہ اتھارٹی کے اعلان کو نسل پرستانہ فیصلہ قرار
دیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق غزہ کی پٹی میں ’ملازمین کی جبری ریٹائرمنٹ اور اس کے نتائج واثرات‘ کےعنوان سے منعقدہ سیمینار سے خطاب میں مقررین نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے سرکاری ملازمین کو قبل از وقت ریٹائر کرنا اسرائیل کی نسل پرستانہ پالیسیوں کی طرح نسل پرستانہ فیصلہ تصور کیا جائےگا۔
اسرائیل بھی فلسطینیوں کے خلاف اسی طرح کی نسل پرستانہ کارروائیوں پر عمل پیرا ہےاور اب صدر محمود عباس اسرائیل کی راہ پر چلتے ہوئے غزہ کی پٹی کےسرکاری ملازمین کی جبری ریٹائرمنٹ کی پالیسی پرعمل کر رہےہیں۔
انسانی حقوق کے مندوبین کا کہنا ہے کہ محمود عباس کو غزہ کےسرکاری ملازمین کی جبری ریٹائرمنٹ کا کوئی حق نہیں۔ اگر وہ ایسا کرتے ہیں اور اپنے اعلان پرعمل درآمد کراتے ہیں تو غزہ کے ساتھ امتیازی سلوک اور نسل پرستانہ جرم تصور کیا جائے گا۔
مقررین نے کہا کہ غزہ کی پٹی کے عوام کے خلاف محمود عباس کے اقدامات انتقامی کارروائیاں اور بے گناہ شہریوں کو سزا دینے کے مترادف ہیں۔ ان کے فیصلوں سے غزہ کی پٹی میں صحت اور تعلیم کے شعبے براہ راست متاثر ہوں گے۔
غزہ کی پٹی میں محکمہ تعلیم کی مالیاتی اور انتظامی کمیٹی کے ڈائریکٹر جنرل راید صالحیہ نے بتایا کہ جبری ریٹائرمنٹ کا سب سے زیادہ شکار غزہ میں تعلیم اور صحت کا محکمہ ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ صدر عباس کی طرف سے غزہ کے 6400 سرکاری ملازمین کو جبری ریٹائرکرنے کی دھمکی دی گئی ہے۔ ان میں محکمہ تعلیم کے 4000 مردو خواتین اساتذہ بھی شامل ہیں جنہیں ملازمت سے فارغ کیا جا رہا ہے۔
اس طرح بڑی تعداد میں محکمہ صحت سے وابستہ ملازمین شامل ہیں۔ اگر صدر محمود عباس اپنے اعلان پر عمل درآمد کراتے ہیں تو اس کے نتیجے میں غزہ کی پٹی میں تعلیم اور صحت کے محکمے بدترین بحران سے دوچار ہوسکتے ہیں۔
انہوں نے سرکاری ملازمین کی قبل ازوقت ریٹائرمنٹ کو انتقامی اور نسل پرستانہ کارروائی قراردیتے ہوئے صدر محمود عباس کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ فلسطینی صدر کی طرف سے غزہ کے جن ملازمین کو ریٹائر کرنے کا اعلان کیا گیا ہے ان میں 40 سے 45 فی صد کا تعلق محکمہ تعلیم کے ساتھ ہے۔