مظلوم فلسطینی قوم کے خلاف صہیونی ریاست کس کس طرح کے انتہائی ظالمانہ حربے استعمال کرتی ہے، اس کا تذکرہ تو بہت تفصیل ہے۔ نہتے فلسطینیوں کے خلاف انتہائی تباہ کن میزائل، طاقت ور بم، ٹینک اور توپیں جو آگ اگلتی ہیں اس سے ہٹ کر روز مرہ کی بنیاد پر فلسطینیوں کو جس طرح کے ظالمانہ حربوں کا سامنا ہے وہ اس کے علاوہ ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ قابض صہیونی فوج اور پولیس مقبوضہ غرب اردن اور بیت المقدس میں فلسطینی مظاہرین کو کچلنے کے لیے آنسو گیس کی شیلنگ اور دھاتی گولیوں کے علاوہ تین اور بھی انتہائی مہلک ہتھیار استعمال کرتی ہے۔
یہ انتہائی مہلک حربے براہ راست فائرنگ، مسام دار گولیاں اور کھلونا بم ہیں۔ آئے روز فلسطینی بچے صہیونی دشمن کے ان مکروہ حربوں کا سامنا کرتے ہیں۔ فلسطینی بچوں کی گرفتاریوں اور دیگر مذم مجرمانہ ہتھکنڈوں کے لیے اس سے بڑھ کر اور کوئی خطرناک اقدام نہیں ہوسکتا۔
براہ راست فائرنگ وہ صہیونی حربہ ہے جو برسوں اور عشروں سے فلسطینیوں کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ نہتے فلسطینی بچوں اور مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے قابض فوج کے پاس یہ سب سے موثر ہتھیار ہے۔ رواں سال کے آغاز سے اب تک غزہ کی پٹی کے مظاہرین کے خلاف اسرائیلی فوج نے 13 فلسطینی بچوں کو شہید کیا جن میں 11 براہ راست فائرنگ میں شہید ہوئے۔ حال ہی میں ایک 16 سالہ عبدالرحمان ابو ھمیسہ کو حال ہی میں گولیاں مار کر شہید کیا گیا۔
شہید کے اہل خانہ کا کہنا ہے کہ صہیونی فوجیوں نے انتہائی قریب سے ابو ھمیسہ کو گولیاں ماریں۔ ایک گولی اس کے کندھے سے گذر کر گردن سے پار ہوگئی۔ اس کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ ایک پرامن احتجاجی جلوس میں شریک تھا۔ اسے 28 جولائی کو غزہ اور شمالی فلسطین کی سرحد پر ایک مظاہرے میں نشانہ بنایا گیا۔
کھلونا اور مشکوک بم
غزہ کی پٹی میں فلسطینیوں پر ہمہ وقت لٹکتے خطرات میں ایک خطرہ کھلونا اور مشکوک بموں کا ہے۔ اسرائیلی فوج نے چونکہ غزہ کی پٹی پر بار بار مسلط کی گئی جنگوں کے دوران بڑی تعداد میں گولہ اور بارود برسایا۔ ان میں بے تحاشا ایسے بم موجود ہیں جو وقتی طور پر پھٹنے سے رہ گئے۔ وہ بم فلسطینی شہریوں کے گھروں کے آس پاس، تباہ شدہ عمارتوں کے ملبے تلے یا زمین میں دھنسے ہوئے ہیں۔ وہ کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں۔
حال ہی میں الخلیل کا ایک 16 سالہ بچہ عدی نواجعہ ایسا ہی ایک مشکوک بم پھٹنے سے شدید زخمی ہوا جو بعد ازاں زخموں کی تاب نہ لا کر دم توڑ گیا۔
نواجعہ کا تعلق غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل کے یطا قصبے سے تھا۔ وہ طوباس کے علاقے میں اپنی بکریوں کے ساتھ تھا کہ اسے ایک مشکوک چیز ملی،اس نے جیسے ہی اسے اٹھا تو وہ اس کے ہاتھوں میں زور دار دھماکے سے پھٹ گیا۔
شہید بچے کے چچا دعاس نواجعہ نے بتایا کہ 28 جولائی کو وہ اپنے بھتیجے اور بیٹے کے ہمراہ طوباس کے مقام پر بکریاں چرا رہے تھے کہ ان کے بھتیجے کو ایک مشکوک چیز ملی۔ یہ مشکوک بم ایک سایہ دار درخت کے سائے میں پڑا ہوا تھا۔ اس کے پٹھنے سے بچہ شہید ہوگیا۔
مسام دار گولیاں اور ننھے فلسطینیوں کے جسم
صہیونی فوج کی طرف سے فلسطینی بچوں کی زندگیوں کے لیے ایک انتہائی مہلک خطرہ مسام دار گولیاں ہیں۔۔ مقبوضہ بیت المقدس سے تعلق رکھنے والے ایک فلسطینی بچے 15 سالہ طارق محمد العیساوی کو اسرائیلی پولیس کی طرف سے مسام دار گولیوں سے نشانہ بنایا گیا۔ مسام دار گولی لگنے سے اس کی ایک آنکھ ضائع ہوگئی۔
مقامی فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ صہیونی فوج کی طرف سے بیت المقدس میں مقامی شہریوں کے خلاف مسام دار گولیوں کا بے دریغ استعمال کیا جاتا ہے۔ اکیس جولائی 2017ء کو بیت المقدس میں العیساویہ قصبے میں اسرائیلی فوجیوں نے ایک بس اسٹینڈ کے قریب فلسطینیوں پر مسام دار گولیوں سے شیلنگ کی۔ ان دنوں فلسطینی قبلہ اول کی بندش کے خلاف احتجاج کررہے تھے اور احتجاج کا سلسلہ اپنے عروج پر تھا۔ صہیونی فوج کی طرف سے داغی گئی مسام دار گولی نے بچے کی آنکھ لے لی۔ اب طارق اپنی دائیں آنکھ سے محروم ہوچکا ہے۔
بچے کا کہنا ہے کہ اسے اسرائیلی فوجی نظر نہیں آیا۔ ایسے لگتا ہے کہ جس نے اسے نشانہ بنایا وہ گھات لگا کر بیٹھا تھا اور اس نے چھپ کر وار کیا ہے۔
عالمی دفاع اطفال تحریک کی فلسطینی شاخ کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ مسام دار گولیوں سے زیادہ تر فلسطینی بچوں کی آنکھوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مسام دار گولیوں سے نہ صرف فلسطینی بچے زخمی ہوتے رہے ہیں بلکہ کئی ایک شہید بھی ہوئے۔ ان میں 10 سالہ محی الدین البطاخی بھی مسام دار گولی کا نشانہ بن کر شہید ہوا۔ اسے جولائی 2016 کو مسام دار گولی کا نشانہ بنایا گیا۔ ایک فلسطینی بچہ محمد سنقطر ستمبر 2014ء کو سینے میں لگنے والی مسام دار گولی سے شہید ہوا۔