فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی عمر رسیدگی اور مسلسل بگڑتی صحت پر صہیونی ریاست کی سیاسی اور عسکری قیادت کو واضح تشویش اور بڑا خوف لاحق ہے۔ سب سے زیادہ قلق اور تشویش اسرائیل کے سیکیورٹی اداروں کو ہے جو صدر محمود عباس کی بدولت مقبوضہ مغربی کنارے میں فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں کے تعاون سے بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ یہ تشویش ایک ایسے وقت میں لاحق ہے جب فلسطینیوں کے مسلح مزاحمتی حملوں سے اسرائیلی لیڈر شپ ہسٹیریا اور فوبیا کا شکار لگتی ہے۔ فلسطینی اتھارٹی کے نام نہاد سیکیورٹی اداروں کے تعاون کے باوجود مزاحمتی کارروائیوں کی روک تھام نہیں کی جاسکی۔
اسرائیلی فوج کے ایک سابق کرنل ریٹائرڈ موشے العاد کا اسرائیلی اخبارات میں ایک مضمون شائع ہوا ہے۔ ’محمود عباس کے بعد کیا ہوگا‘ کے عنوان سے سابق اسرائیلی فوجی افسر نے اپنے مضمون میں محمود عباس کے ما بعد غرب اردن میں امن وامان کی صورت حال کے بے قابو ہونے کا اندیشہ ظاہر کیا ہے۔ کرنل العاد بیت لحم اور جنین میں فلسطینی اتھارٹی کے سیکیورٹی اداروں کے ساتھ مل کر کام کرچکے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ محمود عباس کے بعد غرب اردن میں اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون کا سلسلہ متاثر ہوسکتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے کرنل ریٹائرڈ موشے العاد کے مضمون میں بیان کردہ اہم نکات اور مستقبل کے خطرناک سیناریو پر روشنی ڈالی ہے۔
اسرائیلی فوجی افسرکاکہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے سیکیورٹی تعاون ختم ہونے کے بعد اسرائیل کی سلامتی کو شدید خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔ فلسطینی اتھارٹی کی زمام کار محمود عباس کے ہاتھ سے نکل جانے کے بعد افراتفری، انارکی اور بد امنی میں اضافے کے قوی امکانات اور خدشات موجود ہیں۔
محمود عباس کی مایوسی
اسرائیل کی ریزرو فوج کے سابق کرنل موشے العاد کاکہنا ہے کہ محمود عباس کے مقربین یہ کہتے پائے گئے ہیں کہ ابو مازن فلسطینی اتھارٹی کے مستقبل کے حوالے سے پریشان ہیں۔ وہ اسرائیل کے ساتھ سیکیورٹی تعاون اپنی خرابی صحت کی بناء پر نہیں بلکہ اس لیے ختم کرسکتے ہیں کہ وہ آزاد فلسطینی ریاست کے پہلے صدر بننے کا خواب پورا نہیں کرسکے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ’محمود عباس آزاد فلسطینی ریاست کے پہلے صدر بننے کا خواب دیکھ رہے تھے۔ ان کی خواہش ہے کہ وہ مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا دارالحکومت قراردینے کے بعد اس ریاست کی آزادی کا اعلان کریں مگر مشرقی بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کا صدر مقام بنانے کا ان کا خواب پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا۔ اس کے ساتھ ساتھ محمود عباس ایک بیمار انسان ہیں۔ ان جیسے افراد اپنی خرابی صحت کی بناء پر مصنوعی آکسیجن لینے اور وہیل چیئر پر رہنے پر مجبور ہوتے ہیں‘۔
کرنل موشے العاد مزید لکھتے ہیں کہ محمودعباس کی پریشانی ان کے مسلسل بڑھتے نفسیاتی دباؤ کا نتیجہ ہوسکتی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے کے دوران صدر محمود عباس نے اسرائیل اور امریکا کی طرف سے سخت دباؤ محسوس کیا ہے۔ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ان سے مطالبہ کیاکہ وہ فلسطینی اسیران اور شہداء کے اہل خانہ کی مالی امداد بند کریں۔ آج تک کوئی بھی فلسطینی لیڈر ایسی کسی تجویز یا مطالبے پرعمل درآمد میں ناکام رہا ہے۔ اگرچہ صدر عباس نے بادل نخواستہ غیرملکی دباؤ کے تحت فلسطینی اسیران اور شہداء کی امداد بند کی ہے مگر اسے ’سیاسی خود کشی‘ سے تعبیر کیاجاتا ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ محمود عباس کے بہت زیادہ حامی سمجھے جانے والے مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے بھی ان سے پہلو تہی اختیار کرتے ہوئے اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ اور محمود عباس کے حریف محمد دحلان کے ساتھ قربت بڑھانا شروع کی ہے۔ السیسی کا مقصد غزہ کی پٹی پر اپنا کنٹرول قائم کرنا ہے۔
مسجد اقصیٰ میں حالیہ ایام میں پیدا ہونے والی کشیدگی کے دوران بھی کسی نے فلسطینیوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔ اگرچہ عرب ممالک، خلیجی ریاستوں، مصر اور اردن کا فلسطینی محکمہ اوقاف کے ساتھ رابطہ رہا مگر انہوں نے فلسطینی اتھارٹی کے ساتھ اس حوالے سے کوئی قابل ذکر رابطہ نہیں کیا جس پر یہ تاثر پیدا ہوا کہ صدر محمود عباس کسی بھی وقت اپنے عہدے سے استعفیٰ دے سکتے ہیں۔
کرنل موشے العاد کا کہنا ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کی موجودہ کیفیت میں امریکا، مغرب اور تل ابیب کو چاہیے کہ وہ محمود عباس کے جانشین پر غور کریں۔ فلسطینی اتھارٹی کے سابق سربراہ یاسرعرفات نے بھی اپنا کوئی جانشین منتخب نہیں کیا۔ محمود عباس اپنی شخصیت کی وجہ سے عرفات کے جانشین بنے نہ کہ اپنے عہدے اور منصب کے اعتبار سے اس مقام تک پہنچے۔ یاسر عرفات ایک کرشماتی شخصیت تھے، ان کا محمود عباس کے ساتھ تقابل نہیں کیا جاسکتا۔
اسرائیلی دفاع تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ محمود عباس کا جانشین عرب ممالک کے جمہوری طریقوں کو اختیار کرتے ہوئے اپنے ارد گرد فوج، سیکیورٹی اداروں اور انٹیلی جنس اداروں کا حصار بنانے کی پالیسی پرعمل پیرا ہوسکتا ہے۔
خوفناک منظر نامہ
بنیادی سوال یہ ہے کہ محمود عباس کا متبادل کون ہوگا؟َ تو اس کا جواب یہ ہے کہ فلسطینی اتھارٹی کے پاس ایسے افراد کی قلت ہے جو محمود عباس کے حقیقی سیاسی وارث بن سکیں۔ اسرائیلی جیل میں قید مروان البرغوثی اپنی سیاسی طاقت اور رسوخ کی بناء پر فلسطینی اتھارٹی کے مستقبل کے لیڈر ہوسکتے ہیں مگر کیا اسرائیل انہیں رہا کرے گا یا نہیں۔ اگر انہیں رہا نہیں کیا گیا تو وہ فلسطینی اتھارٹی کی قیادت کیسے سنھبال سکیں گے۔ رہے محمد دحلان تو ان کے پاس جہاں دولت کی فراوانی ہے وہیں دشمنوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔
اسرائیلی تجزیہ نگار کے مطابق ہمیں ہمی بات نہیں بھولنی چاہیے کہ محمد دحلان کو فلسطین سے بے دخل کرنے والے ابو مازن ہی ہیں۔ انہوں نے دحلان پر ایک ارب ڈالر کی کرپشن کا الزام عاید کیا۔ سنہ 2007ء میں غزہ کی پٹی میں حماس اور فتح کے درمیان تصادم کا قصور وار بھی دحلان کو قرار دیا جاتا ہے۔ وہ غزہ کے بجائے مستقبل میں رام اللہ میں وارد ہوسکتے ہیں۔ مگراس کے لیے انہیں اپنی سیاسی طاقت بڑھانے کے لیے اہم سیاسی اور سیکیورٹی عہدیداروں کو خریدنا ہوگا۔ اگر دحلان محمود عباس کی زندگی میں رام اللہ واپس ہوتے ہیں تو اس سے ابو مازن کی زندگی اور کم ہوسکتی ہے۔
کرنل موشے العاد کا کہنا ہے کہ محمود عباس کے متوقع جانشینوں میں ماجد فرج کا نام بھی لیا جاسکتا ہے مگر ان کی سیاسی قوت انتہائی کمزور ہے۔ جو شخص اختیارات چاہتا ہے تو اسے جنرل ماجد فرج کا ساتھ دینا ہوگا۔ ماجد فرج تمام سیناریوز کی کنجی ہیں۔ وہ اس وقت جنرل انٹیلی جنس کے چیف ہیں۔ غرب اردن میں یہی سب سے مضبوط فلسطینی سیکیورٹی ادارہ ہے۔ یوں وہ محمود عباس سے اختیارات کی کلید اپنے ہاتھ میں لے سکتے ہیں۔
ماجد فرج جہاں سابق قیدی ہیں وہیں ان کے اسرائیلی سیکیورٹی اداروں کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ اسرائیلی منشا کے مطابق حماس کو غرب اردن میں دیوار سے لگانے میں ماجد فرج کا اہم کردار رہا ہے۔ وہ خود کو فلسطینی اتھارٹی کے مدارالمہام عناصر میں اہم مقام پر سمجھتے ہیں۔ وہ خود سے بھی یہ سوال کرتے ہیں کہ ’میں مستقبل کا فلسطینی صدر کیوں نہیں بن سکتا‘۔
ایک پہلو یہ ہے کہ حماس فلسطینی اتھارٹی کا تختہ الٹ دے۔ اگر حماس ایسا قدم اٹھاتی ہے تو اسے فلسطینی اتھارٹی کے آٹھ سیکیورٹی بریگیڈ کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ ان میں ’ڈائیٹون بریگیڈ‘ بھی شامل ہے جسے امریکی فوج کی زیرنگرانی تربیت دی گئی۔ مگر حماس کی عسکری طاقت ان تمام بریگیڈ سے زیادہ ہے۔