اسرائیل کے داخلی سلامتی کے ادارے’شاباک‘کے سابق سربراہان کی جانب سے وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو اور ان کی کابینہ پر کڑی تنقید کی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق شاباک کے سابق سرہران کا کہنا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے باہر الیکٹرانک گیٹس اور اسکینر نصب کرنے کے حوالے سے حکومت نے غیر مناسب رویہ اختیار کیا۔ خاص طور پر خاتون وزیر کھیل و ثقافت میری ریگیو کے بیان پر تنقید کی ہے جس میں انہوں نے انٹیلی جنس ادارے کے کردار کو’شکست خوردگی‘ پر مبنی قرار دیا تھا۔
اس کے علاوہ اسرائیل کی حکمراں جماعت ’لیکوڈ‘ کے صدر ڈیویڈ بیٹن نے ’‘شاباک‘ کے اہلکاروں کو ’بزدل‘ قرار دیا تھا۔
عبرانی اخبار ’یدیعوت احرونوت‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ شاباک کے سابق سربراہان نے حرم قدسی میں اسکینر نصب کرنے سے متعلق شاباک کے موقف کی تائید اور حکومتی موقف کی مخالفت کی ہے۔
خیال رہے کہ مسجد اقصیٰ کے باہر حرم قدسی میں اسکینر اور الیکٹرانک گیٹ نصب کرنے کے معاملے میں اسرائیلی حکومت اور خفیہ ادارے ’شاباک‘ کے موقف میں اختلاف تھا۔ وزیراعظم نیتن یاھو،پولیس اور وزراء کا مطالبہ تھا کہ مسجد اقصیٰ کے باہر اسکینر ہرصورت میں نصب کیے جائیں اور لگایے گئے اسکینر نہ ہٹایا جائے مگر ’شاباک‘ کے حکام کا موقف تھا کہ بیت المقدس میں کشیدگی ختم کرنے کے لیے اسکینر ہٹائے جائیں۔
شاباک کے سابق چیف عامی ایلون کا کہنا ہے کہ اگر حالات پرسکون ہوتے تو میں ڈیوڈ بیٹن جیسے شخص کا کو کوئی عسکری تجربہ نہیں اور میری ریگیو جیسی وزیرہ جو فوج میں خدمات انجام دینے کا تجربہ رکھتی ہے پر کوئی غور نہ کرتا۔ انہوں نے کہا کہ ڈیوڈ بیٹن اور میری ریگیو جیسے حکومتی عہدیداروں اور سیاست دانوں کے بیانات افسوسناک ہیں۔ انہوں نے بلا جواز شاباک کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ایک دوسرے سابق شاباک چیف کرمی گیلون کا کہنا ہے کہ ڈیوڈ بیٹن کے بیان کے بعد وزیراعظم نیتن یاھو کے طرز عمل کو بھی افسوسناک قرار دیا جائے گا۔ ڈیوڈ بیٹن کے غیر ذمہ دارانہ بیان کی ذمہ داری نیتن یاھو پر بھی عاید ہوتی ہے اور وہ اس ذمہ داری سے فرار اختیار نہیں کرسکتے۔
شاباک کے دیگر سربراہان یورام کوہین، یعقوب بیری، یووال ڈیسکن اور آفی دیختر سمیت دیگر سابق سربراہان نے مسجد اقصیٰ کے باہر اسکینرنصب کرنے کے معاملے پرحکومت سے اختلاف کیا ہے۔