فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے میں قابض اسرائیلی فوج نے اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے رہ نماؤں اور کارکنوں کی گرفتاریوں کا ایک نیا اور ظالمانہ سلسلہ شروع کیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ حماس کی قیادت کے خلاف قابض کا کریک ڈاؤن مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے جاری فلسطینی تحریک کو کچلنے کی کوشش ہے۔ اسرائیل جانتا ہے کہ مسجد اقصیٰ کے دفاع کی جتنی مضبوط اور موثر تحریک حماس اور اس کے جانثار کارکن چلاسکتے ہیں دوسرا اور کوئی گروپ اس کی جرات نہیں رکھتا۔ چنانچہ اس تحریک کو دبانے اور قبلہ اول کے دفاع کی کوششوں کو غیر موثر بنانے کے لیے حماس کی قیادت اور کارکنوں کو گرفتار کرکے جیلوں میں ڈالا جا رہا ہے۔
اتوار کے روز حماس کے کارکنوں اور رہ نماؤں کے خلاف وحشیانہ کریک ڈاؤن کیا گیا جس کے نتیجے میں حماس کے پچاس کے قریب سرکردہ رہ نما اور کارن حراست میں لیے گئے۔
گرفتاریوں کے محرکات
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے خاتون سماجی کارکن اور تجزیہ نگار لمیٰ خاطر نے کہا کہ غرب اردن میں حماس کے کارکنوں کے خلاف کریک ڈاؤن کے اسباب اور محرکات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ہیں۔ ان گرفتاریوں کا مقصد مسجد اقصیٰ کے دفاع کے لیے عوامی احتجاج اور جلوس منظم کرنے کی کوششوں کو ناکام بناناہے۔
لمیٰ خاطر کا کہنا تھا کہ حماس کے کارکنوں اور رہ نماؤں کی گرفتاریوں کا سلسلہ ایک ایسے وقت میں شروع کیا گیا ہے جب قابض فوج نے غرب اردن اور فلسطین کے دوسرےشہروں میں فلسطینی مظاہرین کو کچلنے کے لیے طاقت کے استعمال کا سلسلہ پہلے ہی جاری رکھا ہوا ہے۔ طاقت کا استعمال اسرائیلی ریاست کی سب سے اہم پالیسی ہے، اسرائیل جب بھی فلسطینی عوام میں غم وغصے کی لہر دیکھتا ہے تو ممکنہ احتجاج کو روکنے کے لیے گرفتاریوں کے ساتھ ساتھ مظاہرین پر طاقت کا استعمال شروع کردیتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیت المقدس بالخصوص مسجد اقصیٰ پر اسرائیلی فوج کی پابندیوں کے بعد پوری فلسطینی قوم میں غم وغصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ فلسطینیوں کی احتجاجی تحریک کو روکنے کے لیے انتقامی پالیسی اپنائی جا رہی ہے مگر اسرائیل کو یہ اندازہ نہیں کہ فلسطینی قوم گرفتاریوں سے خوف زدہ نہیں ہوتی۔ انتقامی کارروائیوں اور کریک ڈاؤن سے مسجد اقصیٰ کے دفاع کی تحریک کو دبایا نہیں جاسکتا۔
حماس سے انتقام
فلسطینی تجزیہ نگار یاسر عزالدین نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غرب اردن میں گرفتاریوں کا سلسلہ حماس کے کارکنان اور رہ نماؤں تک محدود ہے۔ اس سےیہ ثابت ہوتا ہے کہ اسرائیل حماس کی قیادت سے انتقام لے رہا ہے کیونکہ حماس کی طرف سے حلمیش یہودی کالونی میں تین یہودی آباد کاروں کے چاقو کے حملے میں قتل کی حمایت کی ہے اور اس حمایت کی پاداش میں صہیونی ریاست حماس کو انتقامی پالیسی کا نشانہ بنا رہی ہے۔ اس کے علاوہ اسرائیل کا خیال ہے کہ حماس چونکہ صہیونیوں کے خلاف اکسانے کی مہم کا حصہ ہے اس لیے اسے دبانے اور دیوار سے لگانے کے لیے اس کے خلاف کریک ڈاؤن ضروری ہے۔
یاسر عزالدین کا کہنا ہے کہ آنے والے دنوں میں صہیونی فوج کی طرف سے حماس کے خلاف کریک ڈاؤن اور دیگر انتقامی کارروائیوں میں مزید اضافہ ہو سکتا ہے۔
مذہبی تحریکوں کی اہمیت
فلسطینی دانشور نواف العامر نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ حماس کے خلاف اسرائیلی فوج کے کریک ڈاؤن کی ایک وجہ فلسطین میں مذہبی جماعتوں کا اثرو رسوخ بھی ہے۔ اسرائیل کو یہ تو اندازہ ہے کہ اسرائیلی ریاست کے خلاف فلسطینی قوم کو متحرک کرنے اور موبلائز کرنے میں جتنا اہم کردار مذہبی جماعتیں ادا کرسکتی ہیں کوئی دوسری جماعت ایسا نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل نے حماس کے خلاف کریک ڈاؤن شروع کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آنے والے دنوں میں اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کی مزاحمتی سرگرمیوں میں اضافہ ہوسکتا ہے اور مزاحمتی کارروائیوں میں فلسطین کی مذہبی جماعتوں بالخصوص حماس کا کردار نمایاں ہوگا۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل پیشگی تحفظ کے تحت حماس کے خلاف کریک ڈاؤن کررہا ہے۔