دنیا بھر کی طرح فلسطینی بچے بھی عید کے موقع پر اپنے منفرد انداز میں عید کی خوشیاں مناتے ہیں مگر فلسطینی بچوں کی عید کی خوشیوں کو ایک گونہ انفرادیت حاصل ہوتی ہے۔ مظلوم فلسطینی بچوں کی عید کی سرگرمیوں میں بھی قابض صہیونی دشمن کے خلاف مزاحمت کی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے مختلف شہروں میں عید سے قبل بچوں کے کھلونوں کے بازار سج جاتے ہیں۔ جگہ جگہ بچوں کے کھلونوں کے لیے لگائے گئے اسٹالوں پر روایتی کھیل کود کی چیزوں کی نسبت بچے کھلونا ہتھیاروں کو زیادہ شوق سے خرید کرتے ہیں۔ جس سے ان میں آزادی کے لیے مزاحمت کی جھلک نمایاں دکھائی دیتی ہے۔
مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر نابلس میں عید سے قبل لگائے گئے اسٹالوں پر سب سے زیادہ فروخت ہونےوالے کھلونوں میں ٹینکوں اور بندوقوں کے نمونے شام ہیں۔ پلاسٹک کے پستول، بندوقیں، ٹینک اور بکتر بند گاڑیاں بچوں کے پسندیدہ کھلونے قرار دیے گئے۔ شاید ہی ایسا کوئی گھر ہو جس میں بچوں نے کھلونا ہتھیار نہ خرید کیے ہوں۔
آتشیں ہتھیار
فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت اداروں کی طرف سے مقامی فلسطینی تاجروں اور کاروباری شخصیات کو کھلونا ہتھیار فروخت کرنے سے روکنے کی بھی پوری کوشش کی جاتی ہے۔ ان ہتھیاروں میں پلاسٹک کی بندوقیں بچوں کے لیے خطرے کا موجب بھی بن سکتی ہیں تاہم غرب اردن کے اسٹالوں پر یہ بندوقیں کھلے عام فروخت کی جاتی ہیں۔
ایک مقامی دکاندار سعد الخلیلی نے بتایا کہ بچے پستول خرید نے میں زیادہ دلچسپی رکھتے ہیں۔ آتشیں ہتھیار ان کے پسندیدہ کھولنے ہیں اور وہ ان کے متبادل کوئی اور کھلونا خریدنا پسند نہیں کرتے۔
انہوں نے کہا کہ بچوں کے کھلوںوں کے اسٹال لگانے والے تمام دکانداروں کےپاس پلاسٹک کی پستول، بندوقیں، ٹینکوں، بکتر بندگاڑیوں اور فوجی گاڑیوں کے نمونے سب سے زیادہ فروخت ہوتے ہیں۔ نہ صرف بچے بلکہ بچیاں بھی کھلونا ہتھیاروں کی خریداری میں گہری دلچسپی لیتی ہیں۔ اگرچہ پلاسٹک کے میک بکس، بھالو، گڑیا اور بچیوں کے کھیل کے برتن وغیرہ بھی رکھے جاتے ہیں بچیاں ان تمام کھلونوں کو ٹھکرا کران کی جگہ کھلونا ہتھیار خرید کرت ہیں۔
پابندی کے باوجود کاروبار عروج پر
فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غرب اردن بازاروں میں دکانداروں کو سختی سے منع کیا جاتا ہے کہ وہ کھلونا ہتھیار فروخت نہ کریں، مگر دکانداروں کا کہنا ہے کہ بچے خریدتے ہی کھلونا ہتھیار ہیں۔ پابندی کے باوجود کھلونا ہتھیار زیادہ مقبول ہیں۔
بارہ سالہ محمد ریاض نے کہا کہ وہ جانتا ہے کہ پولیس کی طرف سے کھلونا ہتھیار خرید کرنے سے منع کیا جاتا ہے اور اس طرح کے ہتھیار خطرے کا باعث بن سکتے ہیں مگر وہ اس کے باوجود کھلونا ہتھیار خرید کرتا ہے۔ اس نے کہا کہ مقامی تاجر پریشان ہیں کہ کھلونا ہتھیاروں کی وجہ سے ان کی دکانیں بند نہ کردی جائیں، مگر ہماری تریح پلاسٹک کی پستول اور بندوقیں خرید کرنا ہے اور بیشتر بچے ایسے ہی کھلونے پسند کرتے ہیں۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ فلسطینی بچوں میں کھلونا ہتھیاروں میں دلچسپی اس بات کا ثبوت ہے کہ نئی فلسطینی نسل بھی شعوری یا غیر شعوری طور پر قابض دشمن کے خلاف مزاحمت اور جذبہ آزادی سے سرشار ہے۔ شاید فلسطینی بچوں میں کھلونا ہتھیاروں میں دلچسپی کی وجہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں آئے روز ہونے والی انسانی حقوق کی سنگین پامالیاں ہیں۔ اسرائیلی فوج کی جرائم سے نہ صرف بڑی عمر کے فلسطینی شہری بلکہ بچے بھی برابر متاثر ہوتےہیں۔