’مرج ابن عامر‘ کا شمار فلسطین کے سب سے بڑے سرسبز وشاداب میدانوں میں ہوتاہے۔ فلسطین کے مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر جنین میں واقع مرج ابن عامر میدان کو فلسطین میں زراعت کا مرکز اور زرعی پیداوار کا سب سے بڑا باغ کہا جاتا ہے، مگر فلسطین کے دوسرے علاقوں کی طرح یہ سبزو شاداب علاقہ بھی صہیونی ریاست کی توسیع پسندی کی نرغے میں ہے۔
آغاز فتوحات اسلام کے کے دور میں جب فلسطین فتح ہوا مرج ابن عامر بھی اسلامی خلافت کےزیرنگیں آگیا۔ اس میدان کا نام بنی عامر قبیلے کی وجہ سے ’میدان بنی عامر‘ پڑا کیونکہ بنی عامرقبیلے نے سب سے پہلے یہاں پر سکونت اختیار کی تھی۔
فلسطین میں سبزیوں کا مرکز قرار دیے جانےوالے اس میدان کی وسعت 360 مربع کلو میٹر ہے جو جنین سے شمالی فلسطینی شہر حیفا تک پھیلا ہوا ہے۔ نہ صرف میدان بنی عامر بلکہ اس کےاطراف کے علاقے بھی سبزیوں، پھلوں اور فصلوں کی کاشتکی وجہ سے مشہور ہیں۔
جغرافیائی اور تزویراتی اعتبار سے بھی میدان بنی عامر انتہائی اہم مقام پر واقع ہے۔ اس کا ایک کون ساحل سمندر سے اور دوسرا وادی اردن کےپہاڑوں سے متصل ہے۔ میدان میں چھوٹے چھوٹے ٹیلے، وادیاں اوراس کے نشیب و فراز میدان کی اہمیت کو مزید چار چاند لگا دیتے ہیں۔ اس میدان میں پتھر کےدور کے انسانی باقیات کے آثار بھی ملتےہیں جس سے پتا چلتا ہے کہ زمانہ قدیم میں بھی یہ علاقہ آباد تھا۔
انیسوی صدی میں ایک سیاح کا یہاں سے گذر ہوا تو اس نے اس کے بارے میں تبصرہ کرتے ہوئے کہا یہ ’یہ ایک سرسبز جھیل ہے جو اطراف کی بستیوں کو گندم اور فصلوں کی نعمت سے مالا مال کرتی تی ہے‘۔
فلسطین پر برطانیہ کے غاصبانہ قبضے کے دوران مرج ابن عامر میں بھی برطانوی سامراج نے مداخلت کی اور ایک سازش کے تحت قیام اسرائیل سے قبل سے گرین لاین کے اندر کرکے اسے یہودیانے کی سازش کی گئی۔ اس میدان میں العفولہ نامی یہودی کالونی سب سے پہلے آباد کی گئی اور اس کے بعد کئی دوسری کالونیاں بھی یہاں آباد کی گئیں جنہوں نے صندلہ، مقبیلہ، عرابہ، تعنک، خربہ لید، جنجار، تل العدس، ابو شوشہ، خنفس، الیامون، کفردان، رمانہ اور زبونہ جیسی فلسطینی عرب بستیوں کو کا گھیراؤ کرلیا۔
ہمشیہ یاد رکھے جانے والے معرکے
میدان مرج ابن عامر محض ایک سرسبز میدان ہی نہیں بلکہ یہ ماضی میں ہونے والی کئی جنگوں کا اکھاڑا بھی رہ چکا ہے۔ 1479 قبل مسیح میں یہاں پر ’’مجد‘‘ یا ’’اللجون‘‘ نامی جنگ لڑی گئی جس کی قیادت فرعون سوم تحتمس نے کی تھی۔ اس کے بعد 1260 قبل مسیح میں معرکہ عین جالوت، سنہ 1799ء میں نابلیوں کی ناکام جنگ، سنہ 1948ء کا پہلا اور دوسرا معرکہ بھی یہاں لڑا گیا۔
خیرو بھلائی کی سرزمین
کفردان قصبے کے رہائشی ایک مقامی فلسطینی کسان نے مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مرج بن عامر ایک ایسا باغ ہے جس میں ہرطرح کے پھل اور سبزیاں کاشت کی جاتی ہیں۔ کھیرے اور سبزیوں کے موسم میں یہاں ہزاروں مقامی باشندوں کو یہ باغ روزگار بھی مہیا کرتا ہے۔ جنین کے شہری اس باغ میں کاشت کی جانے والی سبزیاں اور پھل دوسرے شہروں تک بھی پہنچاتے ہیں۔
ایک سوال کے جواب میں محمد مرعی نے کہا کہ کیمیائی کیڑے مار ادویات اور اسپرے کے استعمال سے سبزیوں کی کاشت میں اضافہ ہوا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ کسی دور میں یہاں پر 20 کلو تک کے تربوز بھی اگتے تھے مگر اب کیمیائی اسپرے کے استعمال سے اگرچہ پیداوار میں بعض مقامات پر بہتری آئی ہے مگر ’الفیزاریم‘ نامی سونڈی کے باعث زراعت متاثر ہوئی ہے۔
دریائے المقطع
میدان ابن عامر کےدرمیان سے ایک ندی بھی بہتی ہے جو اس کی شادابی اورخوبصورتی میں اضافے کے ساتھ ساتھ آب پاشی میں بھی معاون ہے۔ اس کے علاوہ میدان کے شمالی علاقوں میں کئی اور بھی چھوٹے چھوٹے ندی نالے ہیں مگرسب سے زیادہ اہمیت دریائے المقطع کو حاصل ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر ولید پاشا کا کہنا ہے کہ میدان ابن عامر غیرمعمولی اہمیت اور افادیت کا حامل مقام ہے۔ ان میں وادی المقطع بھی واقع ہے جس کےدرمیان سے دریائے المقطع بہتا ہے۔ یہ دریا قریبا 70 کلو میٹر ہے جو بحیرہ روم میں گرتا ہے۔ تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ جنین شہر میں نینی چشمہ، الشریف، عین الحجر اور عین الصفصافہ چار چشمے اسی دریا میں شامل ہوتے ہیں۔
ولید پاشا کا کہنا ہےکہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ فلسطین کے دوسرے علاقوں کی طرح میدان بنی عامر بھی یہودی توسیع پسندی کی بھینٹ چڑھ رہا ہے۔ اس میدان کے اندر اور اطراف میں اسرائیل نے جگہ جگہ تعمیرات جاری رکھی ہوئی ہیں اور آہستہ آہستہ اس سرسبز وادی کو فلسطینیوں سے ہتھیانے کی سازشیں جاری ہیں۔