اسرائیل میں ایک غیر سرکاری ادارے کی طرف سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 1967ء کی چھ روزہ جنگ کے بعد اسرائیل نے مقبوضہ فلسطینی شہروں میں یہودی آباد کاری پر 20 ارب ڈالر کی خطیر رقم صرف کی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ’مائیکرو اکنامک فار پولیٹک سینٹر‘ کی جانب سے جاری کردہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 1967ء کی عرب۔ اسرائیل جنگ کے بعد مقبوضہ بیت المقدس اور غرب اردن میں یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی پر 20 ارب ڈالر کی خطیررقم پھونکی گئی۔
اسرائیلی غیر سرکاری ادارے کی یہ رپورٹ عبرانی نیوز چینل 2 پر نشر کی گئی ہے۔ یہ رپورٹ ایک ایسے وقت میں جاری کی گئی ہے جب بیت المقدس اور غرب اردن پر اسرائیلی قبضے کے 50 سال پورے رہے ہیں اور صہیونی ریاست اس غاصبانہ قبضے کو جشن اور سلور جوبلی کے طورپر منا رہی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سنہ 1967ء کے بعد اسرائیلی وزارت خزانہ باقاعدگی کے ساتھ ہرسال مقبوضہ عرب علاقوں پر یہودی آباد کاری اور توسیع پسندی کے لیے رقوم مختص کرتی رہی ہے۔ صرف سنہ 2003ء سے 2015ء تک صہیونی ریاست نے غرب اردن میں یہودی آباد کاری پر 3.5 ارب ڈالر کی رقم خرچ کی۔
یہودی تھینک ٹینک کے ڈائریکٹر روبی ناٹانسن کا کہنا ہے کہ گذشتہ پچاس سال کے دوران مجموعی طور پر عرب علاقوں میں20 ارب ڈالر یہودی آبادکاری پر خرچ کیے گئے۔ غرب اردن میں ساڑھے تین ارب ڈالر کی بھاری انفرا اسٹرکثر یہودی کالونیوں اور آباد کاروں کی سیکیورٹی کے منصوبوں پر خرچ کیے گئے۔
رپورٹ کت مطابق ساڑھے تین ارب ڈالر کی رقم بیت المقدس پرخرچ کی گئی رقوم سے ہٹ کر ہے۔ اس کے علاوہ غزہ کی پٹی سے 2005ء میں آٹھ ہزار یہودیوں اور فوجیوں کی واپسی پربھی بھاری رقم خرچ کی گئی تھی۔
رپورٹ کے مطابق غرب اردن اور بیت المقدس میں 6 لاکھ یہودی آباد ہیں، ان میں چار لاکھ غرب اردن میں ہیں جو 26 لاکھ فلسطینی آبادی کے لیے ہمہ وقت کی پریشانی ہیں۔ خیال رہے کہ فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان اپریل 2014ء کو امریکا اور یورپ کی زیرنگرانی جاری رہنے والے مذاکرا نو ماہ بعد اس وقت تعطل کا شکار ہوگئے تھے جب اسرائیل نے غرب اردن میں یہودی آباد کاری کا سلسلہ جاری رکھنے کی تجاویز عملا مسترد کردی تھیں۔