امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ایک نئے بل پردستخط کیے ہیں جس کے تحت اسرائیل میں قائم امریکی سفارت خانے کی سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقے تل ابیب[اسرائیلی دارالحکومت] سے مقبوضہ بیت المقدس منتقلی کا معاملہ مزید چھ ماہ کے لیے موخر کردیا گیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق صدر ٹرمپ نے ایک نئے صدارتی فرمان پردستخط کیے ہیں جس میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقل کا معاملہ مزید چھ ماہ کے لیے ملتوی کردیا گیا ہے۔
خبر رساں ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل میں اپنے سفارت خانے کی القدس منتقلی کے معاملے کو مزید کچھ عرصے تک زیرغور رکھنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران وعدہ کیا تھا کہ صدر بن کر وہ تل ابیب میں قائم امریکی سفارت خانہ مقبوضہ بیت المقدس منتقل کریں گے اور اس کے ساتھ ساتھ بیت المقدس کو اسرائیل کے مستقل دارالحکومت کا درجہ دلوانے کی کوششیں شروع کی جائیں گی۔
عبرانی اخبار’یدیعوت احرونوت‘ نے اپنی رپورٹ میں وائیٹ ہاؤس کے ایک سینیر عہدیدار کے حوالے سے بتایا ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ فی الحال امریکی سفارت خانے کی تل ابیب سے القدس منتقلی کو مناسب نہیں سمجھتے۔ تاہم امریکی عہدیدار کا یہ بھی کہنا ہے کہ ٹرمپ سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی اور القدس کو اسرائیل کا دارالحکومت تسلیم کرنے کے اپنے وعدے پرقائم ہیں۔
خیال رہے کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنی انتخابی مہم کے دوران اسرائیل میں امریکی سفارت خانے کی بیت المقدس منتقلی کا وعدہ کیا تھا تاہم صدر منتخب ہونے کے بعد پہلے چند ماہ کے دوران وہ اس بارے میں کوئی حتمی فیصلہ نہیں کرسکے ہیں۔ حال ہی میں انہوں نے اسرائیل کا دورہ بھی کیا تھا۔ اپنے اس دورے کے دوران انہوں نے اسرائیلی قیادت سے بھی ملاقات کی۔ یہ خبریں آرہی تھیں کہ صدر ٹرمپ دورہ اسرائیل کےدوران سفارت خانے کے بیت المقدس منتقلی کا اعلان کریں گے تاہم انہوں نے اس بارے میں کوئی بات نہیں کہی۔