ماہ صیام آتے ہی بالعموم پورے فلسطین بالخصوص مقبوضہ بیت المقدس کے فلسطینی مکینوں پرصہیونی ریاست کی انتقامی سیاست اور ظالمانہ کارروائیوں میں کئی گنا اضافہ ہوجاتا ہے۔ آئے روز فلسطینی باشندوں پر بھاری ٹیکس عاید کیے جاتے ہیں، نام نہاد وجوہات کی بناء پر فلسطینیوں کو آئے روز جرمانے کیے جاتے ہیں۔ وہ سانس بھی لیتے ہیں تو انہیں اس کا ٹیکس ادا کرنا پڑتا۔ رہی سہی کسر اقتصادی اور معاشی ناکہ بندی نے نکال دی ہے جو عمومی فلسطینی تاجر برادری پر مسلط کی گئی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق بیت المقدس کے علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی ریاست کے تین مکروہ حربوں ٹیکسوں، جرمانوں اور معاشی پابندیوں نے ان کی کمر دوہری کردی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے گفتگو کرتے ہوئے بیت المقدس کے صارفین اور کاروباری حضرات نے قریبا ایک ہی جیسے موقف اور مسائل کا اظہار کیا۔ صہیونی ریاست کی طرف سے بیت المقدس میں فلسطینی کاروباری شخصیات پر طرح طرح کی پابندیاں عاید کی جاتی ہیں۔ نام نہاد سیکیورٹی اقدامات کی آڑ میں ان کا کاروبار تباہ کیا جا رہا ہے۔ فلسطینی شہری آزادانہ طورپر نہ تو سامان تجارت دوسرے شہروں سے لا سکتے ہیں اور نہ ہی پورا وقت اپنے کاروبار کو دے پاتے ہیں۔
اسرائیلی پابندیاں
ایک مقامی تاجر احمد دندیس نے بتایا کہ اس کی دکان پرانے بیت المقدس شہر کے باب العامود کے بازار میں واقع ہے۔ سنہ 2000ء سے قبل ان کا کاروبار ٹھیک تھا مگرسنہ 2000ء کو اسرائیل نے غرب اردن اور بیت المقدس کے درمیان کئی مقامات پر دیوار کھڑی کردی۔ جس کے نتیجے میں غرب اردن کے ہمارے بھائیوں کی اس بازار تک رسائی بند ہوگئی۔ اب ہمارے گاہک صرف باب العامود کے اطراف کی چند ایک کالونیوں تک محدود ہوگئے ہیں۔
دندیس نے بتایا کہ صہیونی انتظامیہ نے سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں باشندوں پر بھی پابندیاں عاید ہیں۔ پورا کاروباری طبقہ صہیونی ریاست کی عاید کردہ ان پابندیوں سے نالاں ہے۔ ہر ایک کی زبان پر گاہکوں کی قلت کا شکوہ ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ صہیونی فوج اور پولیس نے باب العامود کے قریب فدائی حملوں کو جواز بنا کر سیکیورٹی کی آڑ میں سخت ترین پابندیاں عاید کر رکھی ہیں۔ لوگ بازاروں کا رخ کرنے سے گھبراتے ہیں کیونکہ بازاروں میں اشیاء کی خریدار کے بدلے انہیں جس ذلت اور رسوائی کے طویل عذاب سے گذرنا پڑتا ہے وہ ان کے لیے ناقابل برادشت ہے۔ اس صورت حال میں تجارتی سرگرمیاں کیسے پھل پھول سکتی ہیں اور کاروبار میں کیسے بہتری آسکتی ہے۔
بھاری ٹیکسوں کا بوجھ
بیت المقدس کے تاجروں کا کہنا ہے کہ اسرائیلی پابندیوں کے بعد ان کے لیے دوسری بڑی مصیبت بھاری ٹیکسوں کا نفاذ ہے۔ بھاری ٹیکس اس لیے عاید کیے جاتے ہیں تاکہ فلسطینی کاروبارہ طبقہ اس پیشے کو ترک کرتے ہوئے یہ میدان بھی صہیونیوں کے لیے کھلا چھوڑ دیں۔ اقتصادی پابندیوں باعث فلسطینی تاجروں کو درپیش مشکلات اس وقت دوچند ہوجاتی ہیں جب انہیں معمولی کاروبار کے بدلے میں بھی بھاری بھرکم ٹیکس ادا کرنا پڑتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی انتظامیہ کی طرف سے عاید کردہ ٹیکسوں میں ایک بدنام زمانہ ٹیکس’ارنونا‘ ہے۔ اس ٹیکس کی آڑ میں صہیونی ریاست فی مربع میٹر کی جگہ کے عوض 80 ڈالر کے برابر ٹیکس وصول کرتی ہے۔ بہت سے فلسطینی دکانداروں نے محض ٹیکسوں کے بھاری بوجھ کو برداشت نہ کرتے ہوئےکاربار چھوڑ دیا۔ رہی سہی کسر صہیونی انتظامیہ کی طرف سے عاید کردہ جرمانوں نے نکال دی ہے۔
خیال رہے کہ فلسطین کے سرکاری اعدادو شمار کے مطابق مقبوضہ بیت المقدس کے 75 فی صد فلسطینی باشندے غربت کی لکیر سے نیچے زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں جب کہ نوجوانوں میں بے روزگاری کی شرح 30 فی صد ہے۔
ناکہ بندی اور جرمانوں کا عذاب
بیت المقدس میں مٹن اور چکن کے تاجر خضر النتشہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کی دکان المصرارۃ بازار میں ہے۔ اسرائیلی انتظامیہ کی طرف سے ان پر طرح طرح کی پابندیاں اور ناجائز قدغنیں عاید کی گئی ہیں۔ معمولی وجوہات پر بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں جس کے نتیجے میں بازار میں مہنگائی کا دور دورہ ہے۔ نہ دکانداروں کو کوئی منافع مل رہا ہے اور نہ ہی گاہکوں کی تسلی ہو رہی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے نامہ نگار سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ المصرارۃ بازار میں آنے والے فلسطینی شہریوں کو بھی جرمانے کئے جاتے ہیں۔ کوئی بھی شہری اگراپنی گاڑی سمیت بازار میں داخل ہوگیا تو جب تک وہ جرمانہ ادا نہیں کرے گا اس وقت تک باہر نہیں جاسکتا۔
یہی وجہ ہے کہ مقامی فلسطینی گاہک اور خریدار العیزریہ کے بازاروں کا رخ کرنے پر مجبورہیں کیونکہ وہاں پر نسبتا اشیاء کم مہنگی ہیں۔
غربت مسلط کرنے کی گھناؤنی پالیسی
بیت المقدس میں ایوان صنعت وتجارت کی گورننگ باڈی کے چیئرمین مصطفیٰ ابو زھرہ نے مرکزاطلاعات فلسطین سےبات کرتے ہوئے کہا کہ تمام تاجر بدترین اقتصادی اور معاشی استحصال کا شکار ہیں۔ بیت المقدس کی تاجر برادری پر اسرائیلی کی طرف سے آئے روز نئی پابندیاں لگائی جاتی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی حکومت ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت بیت المقدس کے فلسطینیوں پر غربت مسلط کررہی ہے۔ فلسطینیوں پر معاشی تنگ دستی مسلط کرنے کا مقصد ان پر شہر چھوڑ کرھجرت پردباؤ ڈالنا ہے۔ صہیونی ریاست نے سماجی، سیاسی اور ابلاغی سطح پر بیت المقدس کو فلسطینیوں سے پاک کرنے کی مہمات شروع کر رکھی ہیں۔ حال ہی میں بیت المقدس میں یہودی آباد کاروں کا پرچم بردار جلوس نکالا گیا۔ اس جلوس کا مقصد فلسطینیوں کو یہ پیغام دینا تھا کہ بیت المقدس میں ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ انہیں یا تو اسرائیل کی پابندیوں اور غربت مسلط کرنے کی پالیسی کو برداشت کرنا ہوگا یا انہیں شہرچھوڑنا ہوگا۔