ایک ایسے وقت میں جب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اسرائیل کے دورے پر آ رہے ہیں دونوں ملکوں کے درمیان ایک نئی کشیدگی بھی سامنے آئی ہے۔ یہ کشیدگی اس وقت سامنے آئی جب امریکی حکومت کی طرف سے ٹرمپ کے دورے میں شامل ممالک کا نقشہ جاری کیاگیا۔ اس نقشے میں اسرائیل کا نام تو شامل ہے مگر صہیونی ریاست کے نقشے میں دریائے اردن کا مغربی کنارا، مشرقی بیت المقدس شام کا وادی گولان کا علاقہ شامل نہیں۔ یہ وہ علاقے ہیں جن پر اسرائیل نے سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب۔ اسرائیل جنگ میں قبضہ کیا تھا۔
وائیٹ ہاؤس کی جانب سےادارے کے ’ٹوئٹر‘ اکاؤنٹ پر ایک نقشہ جاری کیا گیا جس میں بتایا گیا کہ ٹرمپ پہلے مرحلے میں ان ممالک کا دورہ کریں گے۔
ان نقشوں میں اسرائیل کے نقشے میں سنہ 1967ء کی جنگ میں قبضے میں لیے گئے عرب علاقے شامل نہیں۔
خیال رہے کہ امریکا سرکاری طور پر سنہ 1967ء کے مقبوضہ عرب علاقوں کو اسرائیل کا حصہ نہیں مانتا۔ ان میں غرب اردن، مشرقی بیت المقدس اور وادی گولان کے علاقے ابھی تک اسرائیل کے تسلط میں ہیں۔
ادھر اسرائیلی وزارت خارجہ کی طرف سے ’ٹوئٹر‘ پر امریکی نقشے کے جواب میں ایک مختصر فوٹیج پوسٹ کی گئی ہے جس میں ’بیت المقدس کو اسرائیل کا ابدی دارالحکومت‘ قرار دیا گیا ہے۔
اگرچہ اسرائیلی وزارت خارجہ کی طرف سے واشنگٹن پر کوئی خاص تنقید تو نہیں کی گئی تاہم اتنا کہا گیا ہے کہ ’وائیٹ ہاؤس میں ہمارے دوستو! ہم جناب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مملکت اسرائیل کے دورے کا خیر مقدم کرتے ہیں‘۔
تاہم اسرائیلی خاتون وزیر انصاف ’ایلیت شاکید نے ایک بیان میں وائیٹ ہاؤس کی طرف سے جاری کردہ اسرائیلی نقشے پر تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ توقع ہے کہ یہ غلطی امریکا کی پالیسی نہیں بلکہ لاعلمی کا نتیجہ ہوگی۔