انفارمیشن ٹیکنالوجی کے ماہرین نے دعویٰ کیا ہے کہ حالیہ ایام میں دنیا کے ڈیرھ سو ممالک میں کمپیوٹر سسٹم پرہونے والے تاریخ کے سب سے بڑے سائبرحملے میں امریکی قومی سلامتی ایجنسی ملوث ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق امریکی حکومت کی طرف اس الزام پر کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا تاہم امریکی حکومت کی پراسرا خاموشی سے کئی سوالات جنم لے رہے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ امریکی حکومت کی طرف سے خاموشی نے اس تاثر کو تقویت دی ہےکہ سائبر حملے میں امریکی ایجنسیاں ملوث ہیں۔
خیال رہے کہ یورپ کی پولیس ایجنسی کا کہنا ہے کہ غیر معمولی پیمانے پر سائبر حملے نے دنیا کے مختلف اداروں کو نشانہ بنایا ہے جس کے نتیجے میں دنیا کے 150 ملکوں کے 2 لاکھ سے زاید کمپیوٹرسسٹم ہیک کیے گئے ہیں۔
یوروپول نے کہا ہے کہ اس سائبر حملے کے ذمہ داران تک پہنچنے کے لیے پیچیدہ بین الاقوامی تحقیقات کی ضرورت ہے۔
امریکہ، برطانیہ، چین، روس، سپین، اٹلی اور تائیوان سمیت 150ملکوں میں رینسم ویئر کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
رینسم ویئر وہ کمپیوٹر وائرس ہوتا ہے جس کی مدد سے وائرس کمپیوٹر یا فائلیں لاک کر دیتا ہے اور اسے کھولنے کا معاوضہ مانگا جاتا ہے۔
اگرچہ اس کا پھیلاؤ اب کم ہوتا دکھائی دے رہا ہے تاہم اس کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں ہے۔
’بی بی سی‘ کے مطابق ماہرین کا کہنا ہے کہ جمعہ کے روز سے جاری سائبر حملے میں جس سائبر گروپ ذمہ داری قبول کی ہے۔ وہ اپریل میں ’شیڈو بروکرز‘ کے نام سے سامنے آچکا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں لاکھوں کمپیوٹرز کو متاثر کرنے والے اس سب سے بڑے سائبرحملے کی گیم امریکی قومی سلامتی ایجنسی کی تیار کردہ ہے۔