ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے اسلامی تحریک مزاحمت [حماس] کی جانب سے حال ہی میں جاری کردہ عمومی اصولوں اور پالیسیوں کی دستاویز کو مسئلہ فلسطین سمیت حکمران جماعت الفتح سے مصالحت کے ضمن میں "اہم پیش رفت” قرار دیا ہے۔
ان خیالات کا اظہار انہوں نے استنبول میں القدس کے حوالے سے ہونے والی کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ "سزا نہ ملنے سے مجرم کے ظلم کو بڑھاوا ملتا ہے۔ اسی وجہ سے فلسطین میں ‘اسرائیل’ کے جرائم کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے اور خطے میں امن اور استحکام لانے کی تمام کوششیں ناکامی کا منہ دیکھ رہی ہیں۔ جب تک جرائم کا محاسبہ نہیں ہوتا اس وقت تک صورتحال میں بہتری نہیں آ سکتی۔
انہوں نے اس رائے کا اظہار کیا کہ 1967ء کی حدود کے اندر آزاد وخودمختار فلسطینی ریاست کا قیام ہی اس صورتحال کا واحد حل ہے۔ اس ریاست کا صدرمقام مشرقی بیت المقدس ہونا چاہئے۔ اس مقصد کو عملی جامہ پہنانے کی خاطر اسرائیل پر دباؤ بڑھایا جائے۔
انہوں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ امن عمل سے متعلق حالیہ چند مہینوں میں ہونے والی سفارتی کوششوں اور ان کے لئے ہماری حمایت دراصل محتاط خیر مقدم ہے۔ ہم نے اس صورتحال پر اپنی حتمی رائے ظاہر نہیں کی ہے۔
امریکی سفارتخانے کی مقبوضہ بیت المقدس شہر منتقلی کے حوالے ایردوآن نے واضح کیا کہ ان کے ملک نے مقبوضہ فلسطین میں امریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کے مضمرات سے اعلی اختیاراتی فورمز کو خبردار کر دیا ہے۔” انہوں نے یہ بات زور دے کر کہی کہ اسرائیل میں امریکی سفارتخانے کی القدس منتقلی کے معاملے پر صرف گفتگو ہی بہت بڑی غلطی ہو گی۔
اسرائیل میں القدس کے اندر آذان پر پابندی سے متعلق قانون پر تبصرہ کرتے ہوئے ایردوآن نے کہا کہ "تم [اسرائیلیو] اگر اپنے عقیدے کے پکے ہو تو تمھیں دوسروں کے عقیدہ کی آزادی سے خائف نہیں ہونا چاہئے۔ ہمیں اپنے عقیدے پر اعتماد ہے، اس لئے ہم حریت عقیدہ سے چنداں پریشان نہیں ہیں۔