اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے اپنے 30 سالہ سیاسی اورعسکری سفر کے بعد جماعت کا نیا منشور جاری کیا ہے جس میں واضح کردیا گیا ہےکہ فلسطین پر اسرائیل کا قبضہ باطل اور ناجائز ہے۔ حماس فلسطین کی آزادی کے لیے مزحمت اور مسلح جدو جہد جاری رکھے گی۔
مرکزاطلاعات فلسطین کےمطابق حماس کا نیا منشور جماعت کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے قطر کے دارالحکومت ‘دوحہ‘ میں ایک عوامی تقریب میں پڑھ کرسنایا۔ اس موقع پرحماس کی قیادت، صحافیوں اور دانشورں کے ساتھ ساتھ سیاسی رہنماؤں کی بڑی تعداد بھی موجود تھی۔
حماس کے اس نئے اقدام کا مقصد خطے کے خلیجی عرب ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانا ہے۔
اس ضمنی منشور میں حماس نے 1967ء کی چھے روزہ جنگ میں اسرائیل کے قبضے میں آنے والے فلسطینی علاقوں پر مشتمل ریاست کے قیام کی تجویز کو بھی باضابطہ طور پر تسلیم کرلیا ہے۔
تاہم تنظیم کا 1988ء میں اعلان کردہ اصل منشور جوں کا توں رہے گا اور مغربی ممالک ، روس، امریکا اور اقوام متحدہ کے قائم کردہ گروپ چار کے مطالبے پر اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ واضح رہے کہ امریکا اور اس کے مغربی اتحادی حماس سے اسرائیلی ریاست کو تسلیم کرنے کا مطالبہ کرتے چلے آرہے ہیں جبکہ حماس اسرائیل کے فلسطینی سرزمین پر قیام کو سرے سے قبول ہی نہیں کرتی ہے۔
خالد مشعل نے بتایا ہے کہ جماعتی انتخابات کے نتائج کا اعلان آیندہ چند روز میں کردیا جائے گا۔
نئے سیاسی اور جماعتی منشور میں قضیہ فلسطین سے متعلق 12 بنیادی اصول بیان کیے گئے ہیں جنہیں الگ الگ عنوانات کے تحت بیان کیا گیا ہے۔
حماس کی نئی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ جماعت اپنے بنیادی اصولوں سے انحراف نہیں کرے گی۔ اس کے بنیادی اصولوں میں فلسطین قوم کے حق خود ارادیت، حق واپسی، اسرائیل کے ناجائز قبضے کے خلاف مزاحمت جیسے اصول شامل ہیں۔
نئے منشور میں حماس کی تعریف اور قیام کے اغراض ومقاصد، اس کے بعد ارض فلسطین اور اس کے حوالے سے حماس کے بنیادی مطالبات، فلسطینی قوم اور اس کے بنیادی مطالبات سر فہرست ہیں۔
نئی دستاویز میں فلسطین کے عالم اسلام سے تعلقات اور حماس کا موقف، بیت المقدس، پناہ گزینوں کی واپسی، اسرائیل اور فلسطینی اتھارٹی کےدرمیان فلسطین کی بندر بانٹ پرحماس کا موقف، تحریک آزادی اور مزاحمت، فلسطین کے سیاسی نظام کے خدو خا، حماس کے عرب اور مسلمان ممالک کے ساتھ تعلقات اور عالمی برادری کے ساتھ تعلقات کے اصول و ضوابط شامل کیے گئے ہیں۔
حماس نے اپنے ضمنی منشور میں کہا ہے کہ حماس اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی بلکہ صہیونی ریاست کے فلسطین پر ناجائز تسلط کے خلاف جدو جہد جاری رکھے گی۔ تاہم حماس نے نئے منشور میں سنہ 1967ء کی حدود میں بیت المقدس کو دارالحکومت قرار دینے کی شرط پر آزاد فلسطینی ریاست کا تصور تسلیم کیا ہے۔
مقدمہ:
بارہ نکاتی نئے منشور کا آغاز ’مقدمہ‘ سے کیا گیا ہے جس میں نئی دستاویز کے اجراء کی ضرورت اور اس کے اہم نکات پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
مقدمہ میں قرار دیا گیا ہے کہ سرزمین فلسطین صرف عرب فلسطینی قوم کا وطن ہے۔ اسی میں اس قوم نے آنکھ کھولی۔ اسی میں پرورش پائی، قوم کا اسی مٹی سے آج بھی تعلق ہے اور یہ تعلق ہمیشہ قائم رہے گا کیونکہ فلسطینی قوم کا اس کے سوا اور کوئی وطن نہیں۔
فلسطین اہل فلسطین کا وطن ہے مگر عالم اسلام میں بھی اسے ممتاز مقام حاصل ہے۔ فلسطین کی قدرو منزلت میں ہمیشہ اضافہ ہوا۔ اور اس کی روح، منصفانہ اور عادلانہ اقدار کو ہمیشہ سراہا گیا۔ فلسطینی قوم نے ارض فلسطین کے دفاع اور اس کے تحفظ کو اپنے عقیدے کا جزو بنایا۔
فلسطین ایک ایسا تنازع ہے سے حل کرنے میں دنیا آج تک ناکام رہی ہے۔ فلسطینی قوم کو اس کے غصب شدہ حقوق نہیں مل سکے۔ فلسطینی قوم اور وطن دونوں دنیا کے اس وقت کے بدترین تسلط میں ہیں۔
فلسطین پر ایک قابض اور غاصب انسان دشمن گروپ نے اپنے مخصوص پروگرام کے ذریعے قبضہ کیا۔ بالفور ڈیکلریشن کے نام نہاد اور باطل دعوے کی آڑ میں ارض فلسطین پر غاصب ریاست قائم کی گئی اور طاقت کے ذریعے اس ریاست کو قائم کرنے کی پالیسی اپنائی۔
اہل فلسطین کو مجبورا مزاحمت اور مسلح جدو جہد کا راستہ اختیار کرنا پڑا۔ آزادی کے لیے جاری تحریک کبھی نہیں رُکی۔ قوم نے اس تحریک کے ثمرات بھی حاصل کیے۔ فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی پر قائم رہتے ہوئے قوم ایک مکمل خود مختار ریاست کے قیام کے لیے کوشاں ہے جس میں بیت المقدس کو دارالحکومت کا درجہ حاصل ہوگا۔
نئی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی قوم نے سیاسی شراکت کے اصل الاصول کو اپنایا اور قوم کے تمام نمائندہ دھاروں کو مل کر آزادی کے لیے جدو جہد کرنے اور قوم کی خدمت کی پالیسی اختیار کی۔ حماس اس پالیسی کا ہراول دستہ ہے۔
آج فلسطین ایک نازک دور سے گذر رہا ہے۔ حماس کا نیا منشور جماعت کے ماضی کے تجربات کا نچوڑ ہے۔ نیا منسور مشترکہ فہم و فہرست، بنیادی ویژن، زمین پر جاری مسلسل سفر، بنیادی اصول پر راسخ طریقے سے قائم رہنے اور عمومی صورت کے تحفظ کا آئینہ دار ہے۔ اس میں مستقبل کے نشانات راہ نمایاں ہیں۔ دستاویز میں قومی وحدت کے اصول، قضیہ فلسطین کے لیے مشترکہ فہم، عمل کے اصولوں اور لچک کی حدود واضح کردی گئی ہیں۔
حماس کی تعریف
نئے منشور میں حماس نے اپنی اصطلاح تعریف بھی واضح کی ہے۔ ’اسلامی تحریک مزاحمت’ [حماس] ایک آزادی کی تحریک ہے جو قومی اور اسلامی بنیادوں پر مزاحمت کے اصولوں پر قائم ہے۔ اس کا ہدف فلسطین کی آزادی اور اس کا مقابلہ قابض صہیونی پروگرام سے ہے۔ اسلام حماس کی بنیادی تعلیمات کی بنیاد ہے اور اس کے اہداف وسائل بھی اسلامی تعلیمات کے عین مطابق ہیں۔
ارض فلسطین
ارض فلسطین کا محل وقوع کیا ہے؟ حماس نے اس کی وضاحت بھی نئے منشور میں کردی ہے۔ ارض فلسطین مشرق میں دریائے اردن سے مغرب میں بحر متوسط تک پھیلی ہوئی ہے۔ شمال میں راس الناقورہ اور جنوب میں ام الرشراش اس کی سرحد ہے۔ یہ پورا ایک ہی علاقہ ہے جس میں کوئی تقسیم نہیں کی جاسکتی۔ اس کے اصل باشندے ہی اس کے باسی ہیں۔ اگرچہ ایک غاصب دشمن نے اس کے باشندوں کو یہاں سے بے دخل کرکے ارض فلسطین پر اپنی ناجائز ریاست قائم کی مگر اس کا یہ مطلب نہیں کہ فلسطینی قوم کا اپنے وطن میں رہنے کا حق ختم ہوگیا۔ فی الحقیقت صہیونی ریاست فلسطین میں کسی بھی طور پر پنپ نہیں سکتی۔
پھر یہ کہ ارض فلسطین کی ایک پہچان اس کی عربیت اور اسلامیت ہے۔ یہ ایک مبارک اور مقدس سرزمین ہے اور تمام عرب اور مسلمانوں کے دلوں میں اس کی بے پناہ قدرو منزلت ہے۔
فلسطینی قوم
حماس کے نئے منشور میں فلسطینی قوم کی تعریف بھی واضح کردی گئی ہے۔ فلسطینی وہ عرب شہری ہیں جو سنہ 1947ء تک اس وطن میں آباد تھے۔ انہیں یہاں سے طاقت کے بل بوتے پر نکالا گیا۔ ملک سے نکالے جانے کے بعد بھی وہ فلسطینی ہی ہیں۔ ان کے ہاں پیدا ہونے والا ہر بچہ عرب اور فلسطینی ہے۔ چاہے وہ فلسطین کے اندر ہے یا فلسطین سے باہر کسی دوسرے علاقے میں رہ رہا ہے۔
فلسطینی قوم کی اصل صفت کبھی ختم نہیں ہوسکتی۔ ان کا شجرہ نصب جدی پشتی چلتا ہے۔ نکبات کے ذریعے فلسطینی قوم پر عرصہ حیات تنگ کیا گیا اور جبری بے دخلی کی پالیسی کے ذریعے فلسطینیوں کو دیس نکالا دینے کی سازشیں کی گئیں۔ مگر اس کےباوجود فلسطینی قوم اپنے وطن کے ساتھ وابستہ ہے۔ دنیا کا کوئی قانون اصل فلسطینی باشندوں کو ان کے وطن سے دور نہیں کرسکتا۔ اگر کوئی فلسطینی کسی دوسرے ملک کی شہریت بھی حاصل کرلے مگر اس کی فلسطینیت کی صفت قائم رہے گی۔
اس لیے حماس یہ واضح کرتی ہے کہ تمام فلسطینی جسد واحد کی طرح ہیں۔ چاہے وہ فلسطین کے اندر آباد ہوں یا دوسرے ملکوں میں پناہ گزین کے طور پر رہتے ہوں۔ ان کے دینی، ثقافتی اور سیاسی رحجانات الگ ہوسکتے ہیں مگر ان کے فلسطینی ہونے میں کوئی شبہ نہیں۔
اسلام اور فلسطین
حماس نے نئےی دستاویز میں واضح کیا ہے کہ فلسطینیوں کا اسلام کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ اس ضمن میں کہا گیا ہے کہ
فلسطین عرب اور مسلم امہ کا قلب ہے۔ بیت المقدس اور مسجد اقصیٰ، مقام معرا اور قبلہ اول کی وجہ سے پورے عالم اسلام میں اس مقام کی قدرو منزلت ہے۔ مسلمانوں کا قبلہ اول، مقام اسریٰ و معراج، حضرت مسیح علیہ السلام کا مقام پیدائش ہے۔ فلسطینی سرزمین انبیاء، صحابہ اور مجاھدین کی سرزمین ہے۔ بیت المقدس اور اس کے اطراف و اکناف میں بڑی تعداد میں انبیائے کرام، صحابہ کبار، مجاھدین اور اولیائے کرام آسودہ خاک ہیں۔
حماس کا نقطہ نظر اسلام کو ایک مکمل طرز حیات کے طور پر اپنانے کی طرف رہ نمائی کرتا ہے۔ اسلام میں ہردور اور ہرجگہ اپنے اثرات ڈالنے کی صلاحیت ہے۔ اسلام اعتدال پسندی، امن اور رواداری کا مذہب ہے۔ صرف مسلمان ہی نہیں بلکہ اس کے سائے تے تمام دوسرے ادیان و مذاہب کے پیروکار بھی محفوظ و مامون رہتے ہیں۔
حماس کا اس بات پر یقین ہے کہ فلسطین ماضی ، حال اور مستقبل میں تہذیبی ترقی، بقائے باہمی اور رواداری کے اصول پر قائم رہیں گے۔
حماس اس بات پر زور دیتی ہے کہ اسلام کا پیغام حق، عدل و انصاف، آزادی، انسانی وقار، ظلم کی تمام اشکال کو حرام قرار دینے، رنگ ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر کسی کے ساتھ ظلم کو جرم قرار دینےجیسی سنہری اقدار کا امین ہے۔ اسام انتہا پسندی کی تمام اشکال، مذہبی تعصب، نسل اور فرقہ وارانہ تفریق کو مسترد کرتا ہے۔ اسلام اپنے پیروکاروں کی تربیت جارحیت اور ظلم کے خلاف لڑنے اور مظلوم کی نصرت کی تعلیم دیتا ہے۔ اسلام سخاوت، قربانی، اپنی عزت کے دفاع، وطن، قوم اور مقدسات کے تحفظ کی تلقین کرتا ہے۔
بیت المقدس
حماس کی نئی دستاویز اور ضمنی منشور میں بیت المقدس کو محوری حیثیت حاصل ہے۔ بیت المقدس کو فلسطینی ریاست کے دارالحکومت کا درجہ حاصل ہے۔ اس کےعلاوہ شہر اپنی دینی، تاریخی، تہذیبی، عربی، اسلامی اور انسانی شناخت بھی رکھتا ہے۔ اس شہر میں موجود مسلمانوں اور عیسائیوں کی عبادت گاہیں یکساں قابل احترام ہیں۔ اس شہر کی آزادی فلسطینی قوم ہی نہیں بلکہ عرب اور مسلمان اقوام کا مسلمہ اور ثابت شدہ حق ہے۔ اس پر کوئی سمجھوتہ قبول ہوگا اور نہ اس کی تقسیم گوارا کی جائے گی۔ بیت المقدس کو یہودیانے کی جس قدر سازشیں کی جا رہی ہیں ان کا مقصد شہر مقدس کی اسلامی، عرب اور فلسطینی تشخص کو مٹانا اور شہر پر یہودیت اور عبرانیت کی چھاپ قائم کرنا ہے۔
اس شہر کی ایک بڑی پہچان مسجد اقصیٰ یعنی مسلمانوں کا پہلا قبلہ ہے۔ مسجد اقصیٰ خالصتا فلسطینی اور مسلمان قوم کی ملکیت ہے اور اس پر کسی دوسرے مذہب کی اجارہ داری اور قبضہ قبول نہیں ہوگا۔ مسجد اقصیٰ کو یہودیانے، اسے تقسیم کرنے اور اس کی آئے روز بے حرمتی کی تمام سازشیں غیرآئینی اور باطل ہیں۔
پناہ گزین اور حق واپسی
فلسطینی پناہ گزینوں اور حق واپسی کے حوالے سے حماس کا موقف بھی واضح اور دو ٹوک ہے۔ حماس فلسطینیوں کے حق واپسی کو قضیہ فلسطین کا جوہر سمجھتی ہے کیونکہ فلسطینیوں کو ان کے ملک سے زبردستی نکالا گیا۔ ان کی اراضی اور املاک پر دنیا بھر سے لا کر یہودیوں کو بٹھایا گیا۔ ھجرت پر مجبور کیے گئے فلسطینی چاہے اندورن ملک کسی دوسرے علاقے میں رہتے ہوں یا بیرون ملک پناہ گزین کیمپوں میں مقیم ہوں۔ چاہے انہیں سنہ 1948ء کی جنگ کے دوران ملک ھجرت پرمجبور کیا گیا ہو یا سنہ 1967ء کی جنگ میں نکالا گیا ہو۔ وہ فلسطین ہی کے باشندے ہیں۔ اپنے وطن اور شہروں میں دوبارہ آنے اور آباد ہونے کا انہیں فطری حق حاصل ہے۔ یہ حق انہیں تمام آسمانی مذاہب بھی دیتے ہیں، انسانی حقوق کے بنیادی اصول اور بین الاقوامی قوانین بھی اس حق واپسی کی ضمانت فراہم کرتا ہے۔ یہ ایسا حق ہے جس میں کسی تصرف اور تبدیلی کی گنجائش نہیں۔ نہ کسی فلسطینی کو اسے تبدیل کرنے کا حق یا اختیار ہے اور نہ ہی کسی عرب یا دوسرے غیر عرب ملک کو یہ حق دیا جاسکتا ہے۔
حماس نے کلی طور پر فلسطینیوں کے حق واپسی کے تصفیے کو مسترد کردیا ہے۔ فلسطینیوں کو دوسرے کسی ملک میں آباد کرنے کی کوئی تجویز قبول نہیں کی جائے گی اور ایسا کوئی فارمولہ یا حل قابل قبول ہرگز نہیں ہوگا جس میں فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی پر ضرب لگائی جائے گی۔
صہیونی پروگرام
حماس فلسطین میں صہیونی پروگرام کو جارحیت پر مبنی، قابض، توسیع پسندانہ، دوسروں کے حقوق غصب کرنے والا نس پرستانہ، فلسطینی قوم اور اس کی امنگوں کا خون کرنے والا، آزادی وطن اور حق خود ادایت کا دشمن پروگرام تصور کرتی ہے۔
صہیونی ریاست دراصل صہیونی پروگرام فلسطینی قوم پر مسلط کرنے کا ایک آلہ کار ہے۔
صہیونی پروگرام کی ہدف صرف فلسطینی قوم ہی نہیں بلکہ یہ پوری مسلم امہ اور عرب اقوام کا دشمن پروگرام ہے۔ حقیقی معنوں میں یہ عرب اور مسلمانوں کے لیے خطرہ ہے۔ عالم اسلام کی وحدت، بیداری اور آزادی کا دشمن ہے۔ عالم اسلام اس وقت جن مشکلات سے دوچار ہے اس کا بنیادی سبب یہ پروگرام ہے۔ یہ صرف عالم اسلام ہی نہیں بلکہ عالمی امن کے لیے خطرہ، عالم انسانیت، اس کے مفادات اور استحکام کے لیے زہرقاتل ہے۔
منشور میں واضح کیا گیا ہے کہ حماس کی مخالفت یہودیوں کے بہ حیثیت یہودی مذہب سے نہیں بلکہ بلکہ اس صہیونی پروگرام سے دشمنی ہے۔ حماس ان عناصر کو اپنا دشمن سمجھتی ہے جو فلسطین پر قابض اور ظالم ہیں۔
حماس کسی بھی انسانی طبقے پر اجتماعی اور انفرادی طور پر ظلم کو مسترد کرتی ہے۔ کسی بھی گروہ یا فرد کے بنیادی حقوق کو سلب کرنے کو جرم قرار دیتی ہے۔ قومی، نسلی، دینی، فرقہ وارانہ بنیاد پر حقوق غصب کرنے کے خلاف ہے۔ حماس سام دشمنی اور صہیونیت کو اصل مسئلہ سمجھتی ہے۔تاریخ میں اگر یہودیوں پر ظلم کے مظاہر کی بات کی جاتی ہے تو وہ یورپی ملکوں میں ہے عرب اور مسلم دنیا میں نہیں۔
صہیونی تحریک نے ارض فلسطین پر مغربی استعمار کی مدد سے قبضہ کیا۔ یہ قبضہ انسانی تاریخ کا بدترین غصب کا نمونہ ہے۔ دنیا میں اس کی اور کہیں مثال نہیں ملتی۔
سیاسی مفاہمت اور ساز باز
منشور کے اس جزو میں حماس نے واضح کیا ہے کہ وہ فلسطین پر کسی بھی قسم کی سودے بازی اور قابض دشمن کے ساتھ کچھ لو اور کچھ دو کی پالیسی کو مسترد کرتی ہے۔
حماس کاموقف ہے کہ بالفورڈ یکلریشن، فلسطین پر قبضے کی کوششیں، اقوام متحدہ کی تقسیم فلسطین کی قراردادیں اور ان سے مرتب ہونے والے نتائج و اثرات، اقدامات سب ظالمانہ ہیں۔
حماس واضح کرتی ہے کہ ارض فلسطین پر صہیونی ریاست کا قیام باطل، فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کے منافی، مسلم امہ کے عزم و ارادے اور ناقابل تصرف حقوق پر ڈاکہ، بین الاقوامی اصولوں اور قوانین سے حاصل فلسطینیوں کے حقوق غصب کرنے اور فلسطینیوں کو ان کے حق خود ارادیت سے محروم کرنے کی تمام کوششیں باطل ہیں۔
حماس اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتی۔ فلسطین پر اسرائیلی قبضے کا کوئی جواز نہیں۔ ارض فلسطین کو یہودیانے، اس کی تاریخ، تہذیب اور اسلامی شناخت مسخ کرنے، حقائق کو خلط ملط کرنےکی تمام کوششیں باطل ہیں اور وقت گذرنے کے ساتھ انہیں جائز قرار نہیں دیا جاسکتا ہے۔
حماس سرزمین فلسطین کے کسی ایک جزو سے بھی دستبردار نہیں ہوگی۔ حالات چاہے جیسے بھی ہوں اور اسرائیل کا قبضہ چاہے جتنا بھی طول پکڑ جائے فلسطین پر اسرائیل کے قبضے کو جائز قرار نہیں دیا جاسکتا۔
حماس نے واضح کیا ہے کہ فلسطین کی آزادی کا کوئی متبادل نہیں۔ دریائے اردن سے بحر متوسط تک پورا فلسطین صرف فلسطینی قوم کا ہے۔ حماس ایک عبوری فلسطینی مملکت کے قیام کی حمایت کرتی ہے۔ یہ عبوری ریاست سنہ 1967ء سے پہلے والے فلسطینی علاقوں پر مشتمل ہوگی۔ جس میں بیت المقدس کو اس کے دارالحکومت کا درجہ دیا جائے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ حماس تمام فلسطینی پناہ گزینوں کی وطن واپسی کا مطالبہ کرے گی۔ فلسطینی قوم کے تمام حقوق کی حمایت کےساتھ ساتھ اسرائیل کو تسلیم نہیں کرے گی۔
حماس نے واضح کیا ہے کہ سنہ 1993ء میں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان طے پایا اوسلو معاہدہ اور اس کے ضمن میں ہونے والے دیگر معاہدے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں۔ فلسطینی قوم کے حقوق ناقابل تصرف ہیں۔ اس لیے حماس ان تمام معاہدوں کو فلسطینی قوم کے حقوق کے لیے تباہ کن قرار دیتے ہوئے انہیں مسترد کرتی ہے۔
مزاحمت اور تحریک آزادی
مزاحمت اور تحریک آزادی کے سیاق میں حماس کا موقف یہ ہے کہ فلسطین کی تحریک آزادی پوری مسلم اور عرب امہ پر بالعموم اور فلسطینی قوم پر بالخصوص واجب ہے۔ فلسطینی آزادی کی تحریک اجتماعی انسانی ذمہ داری اور حق وانصاف کے مقتضیات میں شامل ہے۔
اس ضمن میں یہ واضح کیا گیا ہے کہ فلسطین کے تمام حلقے، چاہے وہ عرب ہوں، قومی یا اسلامی اور انسانی ہوں۔ وہ سب اپنی جگہ مکمل ہیں اور ان میں کوئی اختلاف نہیں۔
جہاں تک مزاحمت اور اس کے اسالیب کا تعلق ہے تو ایک مظلوم قوم کی حیثیت سے فلسطینیوں کو بھی آسمانی مذاہب کی تعلیمات اور عالمی انسانی حقوق یہ حق دیتے ہیں کہ وہ اپنے سلب شدہ حقوق کے حصول کے لیے جس طرح کی حکمت عملی چاہیں اختیار کرسکتے ہیں۔
حماس مسلح مزاحمت کے خلاف کسی بھی اقدام کو مسترد کرتی ہے۔ فلسطینی قوم کو اپنے دفاع اور آزادی کے لیے مزاحمت کے تمام اسلوب اور طریقے اختیار کرنے کا حق ہے۔ چاہے جنگ ہو یا امن ہرحال میں فلسطینیوں کو اپنا دفاع کرنا ہے۔
سیاسی نظام
حماس کا کہنا ہے کہ حقیقی فلسطینی ریاست صرف آزادی کا ثمر ہوسکتی ہے۔ ایک مکمل آزاد اور خود مختار فلسطینی ریاست اور بیت المقدس کو اس کا دارالحکومت بنائے جانے کے مطالبے کا کوئی متبادل نہیں۔
حماس فلسطین میں انتظامی امور کی انجام دہی کے لیے جمہوری اصولوں، قومی شراکت اور عددی اکثریت کے مطابق حق فراہم کرنے کے اصول پر قائم ہے۔ تمام فلسطینیوں کو ایک دوسرے کو قومی شراکت میں قبول کرنا، قومی وحدت ، مشترکہ عمل اور حکمت عملی اختیار کرنا حماس کے بنیادی مطالبات ہیں۔
تنظیم آزادی فلسطین قومی دھارے میں پوری قوم کی نمائندہ ہونی چاہیے۔ اس میں اندرون اور بیرون ملک مقیم فلسطینیوں کو ان کے قد کاٹھ اور سیاسی حیثیت کے مطابق حصہ فراہم کیا جائے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ تنظیم آزادی فلسطین کی از سرنو تشکیل عمل میں لائی جائے۔ یہ تشکیل نو صرف جمہوری بنیادوں پر ہونی چاہیے جس میں قوم کے تمام بنیادی اور اہمیت کےحامل دھڑوں کو شامل کیاجائے جو مل کر فلسطینی قوم کے حقوق کا دفاع کرسکیں۔
اس کے ساتھ ساتھ حماس تمام قومی اداروں کو بنیادی اور دیرینہ اصولوں ، جمہوریت اور قومی شراکت کی بنیاد پرتشکیل دیا جائے۔ ملک میں تمام انتخابات کو شفاف بنانے کا نظام وضع کیا جائے۔ یہ سب کچھ واضح آثار وعلامات، قومی حقوق سے وابسگتی اور حقیقی شراکت کی بنیاد پرکیا جائے۔
فلسطینی اتھارٹی کا کردار قومی خدمت ہونا چاہیے۔ فلسطینی اتھارٹی کو قوم کے بنیادی حقوق کے حصول اور قوم کے تحفظ کا ذمہ دار ادارہ بنانے کے لیے تمام قومی دھاروں کو اس میں شامل کیا جانا چاہیے۔
فیصلہ سازی میں آزادی اور شراکت ناگزیر قرار دی جائے اور کوئی بھی قومی نوعیت کا فیصلہ کرتے ہوئے کسی بھی قسم کا خارجی دباؤ مسترد کردیا جائے۔ اس کے ساتھ ساتھ عرب اور مسلمان ممالک بھی فلسطین کی صہیونی قبضے سے آزادی کے لیے اپنا کردار ادا کریں۔
فلسطینی سماج کے تمام اجزائے ترکیبی، سیاسی جماعتیں، سماجی تنظیمیں، یوتھ کی نمائندہ یونینز، طلباء تنظیمیں، خواتین اور ملازمین کی یونین مل کر قومی اہداف کے حصول کے لیے ایک سیسہ پلائی دیوار بن جائیں اور آزادی اور مزاحمت کے لیے اپنی قوت کو مجتمع کریں۔
حماس نے زور دیا کہ فلسطینی خواتین کو ملک کے حال اور مستقبل میں ایک اہم جزو کےطور پراپنی خدمات انجام دینے کا موقع دیا جائے۔ فلسطین میں تاریخی فیصلہ سازی میں خواتین نے ہمیشہ موثر کردار ادا کیا۔ ان کے قومی مزاحمت، آزادی اور سیاسی نظام کی تشکیل میں محوری کردار کو نظرانداز نہیں کیاجاسکتا۔
عالم عرب اور مسلم امہ
حماس نے اپنے نئے منشور میں واضح کیا ہے کہ قضیہ فلسطین پوری مسلم امہ اور تمام عرب اقوام کا مرکزی اور فوری حلب طلب مسئلہ ہے۔ حماس یہ واضح کرتی ہے کہ فلسطینی قوم عالم اسلام اور عرب ممالک کے بغیر آگے نہیں بڑھ سکتی۔
عالم اسلام میں انتشار اور دشمنی پیدا کرنے کی تمام سازشیں ناکام بنائی جائیں۔ حماس تمام عرب اور مسلمان ممالک کے ساتھ یکساں تعلقات کےقیام کی خواہاں ہے اور کسی بھی دوسرے ملک کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی نہیں کرتی۔
انسانی اور بین الاقوامی پہلو
حماس کا کہنا ہے کہ مسئلہ فلسطین کا ایک پہلو انسانی اور بین الاقوامی بھی ہے۔ نصرت فلسطین بین الاقوامی انسانی اور تہذیبی اہمیت کے حوالے سے بھی اہم ترین مسئلہ ہے۔ عالمی سطح پر فلسطینیوں کی نصرت، حق اور عدل و انصاف کو یقینی بنانے کے لیے مہمات چلانے کی ضرورت ہے۔
تحریک آزادی فلسطین قانونی اور انسانی پہلو سے ایک آئینی مسلمہ ہے۔ عالمی قوانین ہر فرد اور قوم کو اپنے اجتماعی اور انفرادی حقوق کے دفاع اور ان کےحصول کا حق دیتئ ہیں۔
حماس عالمی برادری کے ساتھ باہمی تعاون، انصاف، آزادی اور اقوام کے حق خود ارادیت کی حمایت کے اصول کے تحت تعلقات استوار کرنے پر یقین رکھتی ہے۔
حماس فلسطینی قوم کے حقوق کی حمایت اور نصر کرنے والے دنیا بھر کے اداروں، اقوام اور ممالک کے موقف کا خیر مقدم کرتی ہے۔
اسی طرح اسرائیلی دشمن کی طرف داری کرنے، فلسطینیوں کے خلاف جرائم کی پردہ پوشی کرنے، فلسطینی قوم کے خلاف جارحیت میں صہیونیوں کی مدد کرنےکی تمام اشکال کی مذمت کرتے ہوئے صہیونی جنگی مجرموں کو عالمی عدالتوں میں کٹہرے میں لانے کا مطالبہ کرتی ہے۔
حماس عالم اسلام کو مغلوب کرنے، اس کے وسائل پرقبضہ کرنے اور ظلم کا ساتھ دینے کی شدید مذمت کرتے ہوئے استعمار، قبضے، نسل پرستی، ظلم و عدوان کی ہرشکل کی کھل کر مذمت کرتی ہے۔