فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس خصوصی دورے پر امریکا پہنچ گئے ہیں جہاں وہ کل بدھ کو صدر ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق محمود عباس اعلیٰ اختیاراتی وفد کے ہمراہ کل سوموار کو امریکا روانہ ہوئے تھے۔ آج منگل کو بھی وہ امریکی حکومتی عہدیداروں اور کانگرنس کے ارکان سے ملاقاتیں کریں گے۔ ان ملاقاتوں میں فلسطین۔ اسرائیل امن بات چیت کی بحالی کے امکانات کا جائزہ لیا جائے گا۔
کل بدھ کو صدر محمود عباس وائیٹ ہاؤس میں اپنے امریکی ہم منصب ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات کریں گے۔ اس ملاقات میں فلسطین۔اسرائیل امن مذاکرات کی بحالی میں امریکا کے ممکنہ کردار، تنازع فلسطین کے حل اور فلسطینی قوم کے تاریخی حقوق کے حصول پر بات چیت کی جائے گی۔
امریکی دورے کے دوران تنظیم آزادی فلسطین کے سیکرٹری صائب عریقات، نائب وزیراعظم زیاد ابو عمرو، انٹیلی جنس چیف میجنر جنرل ماجد فرج، صدر کے معاشی مشیر اور فلسطین انویسٹمنٹ بنک کے چیئرمین محمد مصطفیٰ، صدر کے ترجمان نبیل ابو ردینہ اور صدر کے سفارتی امور کے مشیر مجدی الخالدی بھی ہمراہ ہیں۔
صدر محمود عباس کے ترجمان نبیل ابو ردینہ کا کہنا ہے کہ صدر کا دورہ امریکا نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ انہوں نے زور دے کر کہا کہ خطے میں قیام امن کا یہ بہترین موقع ہے۔ عالمی برادری کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس موقع سے فایدہ اٹھاتے ہوئے مشرق وسطیٰ میں دیر پا قیام امن کے لیے تنازع کا حل نکالے۔
درایں اثناء اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے صدر محمود عباس کے دورہ امریکا کی مخالفت کرتےہوئے اسے بے مقصد اور وقت کا ضیاع قرار دیا ہے۔
حماس کے ترجمان فوزی برھوم کا کہنا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ سے ملاقات فلسطینی قوم کے مفادات کےلیے کسی بھی طور پر سود مند ثابت نہیں ہوسکتی۔ یہ دورہ وقت کا ضیاع اور خوش فہمی کی ناکام کوشش کے سوا کچھ نہیں۔
ترجمان کا کہنا تھا کہ جب تک امریکا فلسطین کےحوالے سے اپنی پالیسی تبدیلی نہیں کرتا، صہیونی ریاستی دہشت گردی کی پشت پناہی ترک کرکے فلسطینیوں کے منصفانہ حقوق اور مطالبات کوتسلیم نہیں کرتا اس وقت تک امریکا کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات بے معنی ہیں۔