فلسطین میں انسانی حقوق کی تنظیموں نے رام اللہ اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس کی آمریت کا ایک نیا اقدام طشت ازبام کیا ہے جس میں انہوں نے اسرائیلی ریاست کی راہ پر چلتے ہوئے شہری آزادیوں پر قدغنیں لگانے کا نیا قانون منظور کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق قانون سازی میں منتخب پارلیمنٹ کو بائی پاس کرتے ہوئے صدر محمود عباس نے ایک نیا حکم نامہ جاری کیا ہے جس میں پراسیکیوٹر کو وسیع تر اختیارات دیے گئے ہیں۔ ان اختیارات میں شہریوں کے بیرون ملک سفر پر پابندی کا اختیار بھی شامل کردیا گیا ہے۔
فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام پراسیکیوٹر جنرل کو یہ اختیار دیا گیا ہے کہ کسی بھی فلسطینی کے بیرون ملک سفر پرپابندی کا مجاز ہے۔
انسانی حقوق کی تنظیموں نے صدر عباس کے اس اقدام کو آمرانہ، انسانی حقوق کی پامالی، شہریوں کی سفری آزادی پرقدغن اور پارلیمان کے فیصلوں کو بائی پاس کرنے کے مترادف قرار دیا ہے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ فلسطینی صدر محمود عباس نے منتخب پارلیمنٹ کے اختیارات کو اپنی ذات میں سمیٹ رکھا ہے اور وہ پارلیمنٹ کی خود ہی قانون سازی کا مرکز بن چکے ہیں۔ ان کی اس پالیسی سے پارلیمنٹ کی حیثیت بری طرح متاثر ہوئی ہے۔
ادھر دوسری جانب فلسطین میں شہری آزادیوں کے لیے کام کرنے والے انسانی حقوق کارکن اور ڈائریکٹر جنرل ’ہیومن رائٹس فریڈم کونسل‘ کےڈائریکٹر جنرل عمار دویک نے صدر عباس کے فیصلے پرکڑی تنقید کی ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ صدر محمود عباس کے پاس فوج داری قوانین میں ترمیم کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ اگر ذرائع ابلاغ میں آنے والی اطلاعات درست ہیں تو یہ شہری آزادیوں پر حملے کے مترادف ہے۔ صدر عباس کے اس اقدام سے فلسطینی قوم میں انتشار میں مزید اضافہ ہوگا۔