فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے غزہ کے ہزاروں ملازمین کی تنخواہوں میں اچانک تیس فی صد کمی کے اعلان کے بعد فلسطینی عوام کے احتجاج نے رام اللہ اتھارٹی کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ دوسری جانب فلسطینی صدر محمود عباس کے زیرصدارت تحریک فتح کی سینیٹرل کمیٹی کا اجلاس تنخواہوں کے بحران کے حل پر کوئی فیصلہ کرنے میں ناکام رہا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق غزہ کی پٹی میں فلسطینی ملازمین کی تنخواہوں میں کمی اور اس کے نتیجے میں عوامی شدید احتجاج کے بعد صدر عباس کی زیرصدارت پارٹی کا اہم اجلاس ہوا۔ اجلاس میں ملازمین کے تنخواہوں میں کمی کے معاملے پر احتجاج کی ذمہ داری اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ پرعاید کی۔
اجلاس کے دوران تحریک فتح کے ارکان نے وزیراعظم رامی الحمد اللہ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ وزیراعظم کو تنخواہوں، مالی مراعات اور معاشی بوجھ کے معاملے توازن قائم کرنا چاہیے۔
اجلاس کے دوران پارٹی کے بعض عہدیداروں نے موجودہ عوامی احتجاج پرحماس کو تنقید کا نشانہ بنایا اور کہا کہ حماس فلسطینی اتھارٹی کے معاشی مسائل کوسمجھنے کے بجائے فوری احتجاج پر اترآتی ہے۔ غزہ میں ہونے والے احتجاج میں حماس کا ہاتھ ہے۔
اس موقع پر حماس کے ساتھ مذاکرات کے لیے ایک کمیٹی قائم کرنے کی بھی تجویز پیش کی گئی جسے منظور کرلیا گیا ہے۔ یہ کمیٹی جلد ہی تنخواہوں میں کمی کے معاملے پر حماس کی قیادت سے بات چیت کرے گی۔
فتح کی مرکزی کونسل کے اجلاس میں حماس کے ساتھ بات چیت کے لیے رابطہ کمیٹی کی تشکیل کا اعلان کیا گیا اور اس معاملے کو 25 اپریل تک حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ اجلاس میں کہا گیا ہے کہ سرکاری ملازمین کو سیاسی بنیادوں پر بلیک میل کرنے کی گنجائش نہیں۔ حکومت کو تنخواہوں ، مالی مراعات اور معاشی بوجھ میں تمام فلسطینیوں کو یکساں طور پر شریک کرنا ہوگا۔
تحریک فتح نے زور دیا کہ غزہ اور غرب اردن کے عوام کے لیے تمام تر حکومتی فیصلوں میں قومی مفاد کو مد نظر رکھا جانا چاہیے۔غزہ کے عوام کو نظر انداز کرنے اور سیاسی بنیادوں پر اجتماعی پابندیوں کا تاثر قائم نہیں ہونا چاہیے۔
ادھر دوسری جانب حماس کے ترجمان فوزی برھوم نے کہا ہے کہ اگر رام اللہ حکومت غزہ کی پٹی کے عوام کے مسائل اور ان می ضروریات پوری کرنے کی ضمانت دے تو وہ تمام حکومتی عہدے حکومت کےحوالے کرنے کو تیار ہیں۔