ترکی نے فلسطینی مساجد میں اذان پر پابندی کے سیاہ صہیونی قانون کی شدید مذمت کرتے ہوئے اس پر نظر ثانی کا مطالبہ کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ترک وزیر مذہبی امور محمد غورماز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ اسرائیلی کنیسٹ سے فلسطینی مساجد میں اذان پرپابندی کے قانون کی منظوری بیت المقدس اور ارض فلسطین پر اسلام کے وجود سے انکار کے مترادف ہے۔
جنوبی ترکی کی غازی عنتاب ریاست میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ترک وزیر برائےمذہبی امور نے کہا کہ اسرائیلی کنیسٹ نے فلسطینی مساجد میں اذان پر قدغنیں عاید کرنے کا قانون منظور کرکے اسلام کے وجود کو نظر انداز کرنے کی مذموم کوشش کی ہے۔ عالم اسلام اسرائیلی کنیسٹ کے قانون کو کسی صورت میں تسلیم نہیں کریں گے۔
غور ماز نے کہا کہ عالم اسلام کے لیے یہ خبر انتہائی افسوسناک ہے کہ اسرائیلی پارلیمنٹ نے بیت المقدس اور فلسطین کے دوسرے شہروں میں قائم مساجد میں اذان دینے پر پابندی عاید کی ہے۔ یہ پابندی بیت المقدس اور فلسطین میں مسلمانوں اور اسلام کے وجود سے انکار کا واضح اسرائیلی اشارہ ہے۔
ترک وزیر نے کہا کہ بیت المقدس مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کے بعد عالم اسلام کے لیے تیسرا مقدس ترین شہر ہے۔ اس شہر میں اذان پر پابندی وہاں پرصدیوں سے چلے آرہی اسلامی روایات پر حملہ اور اسلامی تاریخ مسخ کرنے کی کوشش ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ کسی ملک کو دوسری اقوام کے مذہبی امور میں داخلت کا کوئی حق نہیں ہے۔ اذان پر پابندی مسلمانوں کے مذہبی شعائر اور مذہبی معاملات میں ریاست کی مداخلت کے مترادف ہے۔
خیال رہے کہ دو روز قبل اسرائیلی کنیسٹ نے ایک متنازع مسودہ قانون پر ابتدائی رائے شماری کرانے کے بعد اس کی منظوری دی تھی جس میں بیت المقدس اور فلسطین کے دوسرے شہروں کی مساجد میں اذان پر پابندی کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ قرارداد کی حمایت میں 120 کے ایوان میں 55 نے حمایت اور 48 نے مخالفت کی تھی۔ اس قانون کے تحت رات گیارہ بجے سے صبح سات بجے تک مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پر اذان نہیں دی جاسکتی۔ قانون کے تحت خلاف ورزی کرنے پر مسجد کی انتظامیہ کو 5سے 10 ہزار شیکل جرمانہ ادا کرنا ہوگا۔ امریکی کرنسی میںی یہ رقم 1300 سے 2600 ڈالر کے مساوی ہے۔