اسرائیلی پارلیمنٹ نے ایک نئے مسودہ قانون پر دوسری اور تیسری رائے شماری کرتے ہوئے اسرائیلی ریاست کا بائیکاٹ کرنے والے عالمی کارکنوں کو صہیونی ریاست میں داخلے پر پابندی عاید کردی ہے۔
یہ قانون اب تک نافذ رہنے والے اس قانون کے برعکس ہے۔ پہلے سے نافذ العمل قانون کے تحت اسرائیلی ریاست کا بائیکاٹ کرنےوالے کارکنوں کو فوری طور پر ویزہ جاری رکنے کی اجازت حاصل تھی مگر نئے قانون کے تحت عالمی بائیکاٹ کی تحریک پر اثر انداز ہونے کے لیے صہیونی ریاست نے نیا قانون منظور کیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسرائیلی حکمراں اتحاد میں شامل ’جیوش ہوم‘ نامی مذہبی سیاسی جماعت نے ایک نیا مسودہ قانون تیار کرنے کے بعد اسے چند ہفتے قبل پارلیمنٹ میں پیش کیا تھا۔ اس آئینی بل میں سفارش کی گئی تھی کہ اگر اسرائیل کا کوئی نجی ادارہ یا تنظیم یہودی آباد کاری یا ان کالونیوں میں تیار ہونے والی مصنوعات کا بائیکاٹ کرے تو اس ادارے یا تنظیم کا بھی مکمل تجارتی بائیکاٹ کیا جائے اور اسے ریاست کی طرف سے حاصل مراعات واپس لی جائیں۔
یہ مسودہ قانون رکن کنیسٹ شولی معلم نے پیش کیا تھا اور آئندہ چند روز میں اس مسودے پر بحث کی جائے گی۔
خیال رہے کہ اس سے قبل اسرائیلی پارلیمنٹ عالمی سطح پر اسرائیل کا بائیکاٹ کرنے والے کارکنان کے حوالے سے بھی ایسا ہی قانون منظور کرچکی ہے۔
اسرائیلی پارلیمنٹ کی داخلہ کمیٹی نے ایک نئے مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت عالمی سطح پر اسرائیل کے بائیکاٹ میں سرگرم رہنے والے کارکنان کو صہیونی ریاست کا ویزہ جاری نہیں کیا جاسکے گا۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق عالمی بائیکاٹ تحریک کے کارکنان پردباؤ ڈالنے کے لیے یہ بل حال ہی میں ’بزلئل سموطریچ‘ نامی رکن پارلیمنٹ نے پیش کیا تھا جس میں سفارش کی گئی تھی کہ اسرائیلی بائیکاٹ کی تحریک چلانے والے عالمی کارکنان کو صہیونی ریاست میں داخل ہونے سے روکا جائے۔