امریکا کی موجودہ حکومت کوئی بھی اہم فیصلہ کرتے ہوئے صہیونی ریاست اور یہودیوں کی خوش نودی کو مد نظ رکھتی ہے۔ اس کا اظہار جمعہ کے روز ہونےوالے اس فیصلے سے کیا جا سکتا ہے جس میں امریکی حکومت نے لیبیا کے لیے امن مندوب کے طور پرسابق فلسطینی وزیراعظم سلام فیاض کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔
سفارتی ذرائع کے مطابق امریکا نے جمعے کے روز لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کے طور پر سابق فسلطینی وزیراعظم سلام فیاض کے تقرر میں رکاوٹ ڈال دی۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل آنتونیو گوٹرس نے رواں ہفتے سلامتی کونسل کو آگاہ کیا تھا کہ وہ لیبیا کے مشن کے سربراہ کے طور پر سلام فیاض کے تقرر کا ارادہ رکھتے ہیں تاکہ سیاسی معاہدے کے واسطے بات چیت دوبارہ شروع کی جا سکے۔
اقوام متحدہ میں امریکی سفیر نِکی ہیلی نے ایک بیان میں کہا ہے کہ ” بہت طویل عرصے سے اقوام متحدہ ہمارے اسرائیل میں حلیفوں کے مقابل فلسطینی اتھارٹی کے لیے جانب داری کا مظاہرہ کر رہی تھی”۔ انہوں نے اس تقرر کے حوالے سے اپنی شدید مایوسی کا اظہار کیا۔ ہیلی نے واضح کیا کہ ” آئندہ سے امریکا اپنے حلیفوں کو سپورٹ کرنے کے لیے متحرک نظر آئے گا اور صرف زبانی خرچ نہیں ہوگا”۔
اقوام متحدہ کے سکریٹری جنرل نے سلامتی کونسل کو جمعے کی شام تک کی مہلت دی تھی تاکہ وہ جرمنی سے تعلق رکھنے والے مارٹن کوبلر کی جگہ سلام فیاض کے تقرر کی تجویز پر غور کرلے۔ کوبلر نومبر 2015 سے لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کے خصوصی ایلچی کے فرائض انجام دے رہے ہیں۔
سلام فیاض فلسطینی اتھارٹی میں 2007 سے 2013 تک وزیراعظم کے منصب پر فائز رہے۔ اس کے علاوہ وہ دو مرتبہ وزیر مالیات بھی رہ چکے ہیں۔
یہ پیش رفت ایسے وقت میں سامنے آ رہی ہے جب اقوام متحدہ کی وساطت سے لیبیا میں طے پائے جانے والے سیاسی معاہدے میں تبدیلیاں لانے کے حوالے سے سفارتی مذاکرات جاری ہیں۔ اس معاہدے کے نتیجے میں فائز السراج کی سربراہی میں قومی وفاق کی حکومت تشکیل پائی تھی۔