فلسطین کے بچے ہوں یا بوڑھے، قابض صہیونی دشمن کے خلاف ان کے عزم واستقلال، جرات بہادری اور قربانیوں کی مثال پیش کی جاتی ہے۔ انہی مجاھدین میں 75 سالہ کسان عبدالطیف الدمس بھی شامل ہیں جن کی زندگی قربانیوں اور جرات و بہادری سے عبارت ہے۔ وہ پیرانہ سالی کے باوجود آج بھی صہیونی دشمن کے سامنے پورے قد کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان کا مجاھدانہ بانکپن اور عزم آج بھی جوان اور توانا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے ’عبدالطیف الدمس المعروف ابو جہاد کی زندگی پر مختصر روشنی ڈالی ہے۔
پیشے کے اعتبار سے ابو جہاد ایک کسان ہیں جن کی صبح اور شام اپنے کھیتوں میں کھیتی باڑی اور کاشت کاری میں شروع اور ختم ہوتی ہے۔ ابو جہاد کا تعلق مقبوضہ مغربی کنارے کے شمالی شہر سلفیت سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کی اراضی کے بیچ صہیونی ریاست نے دیوار فاصل کھڑی کر رکھی ہے مگر وہ اپنی بچی کھچی اراضی کو بچانے اور دوسرے شہریوں کی اراضی کی حفاظت کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں۔
سلفیت کے نواحی علاقے وادی ھیاج کے مکین ابو جہاد اور اس کا پورا خاندان کھیتی باڑی سے وابستہ ہے۔ ان کے کھیتوں میں سبزیوں کے ساتھ ساتھ گندم اور دیگر فصلیں بھی کاشت کی جاتی ہیں۔
عمر رسیدگی کے باوجود وہ اپنے عزم وہمت پ قائم ہیں۔ ان کا ایک بیٹا اسرائیلی فوج کی ریاستی دہشت گردی میں شہید ہو چکا ہے۔ دشمن نے ان کی اراضی بھی غصب کر رکھی ہے۔ اراضی کا ایک بڑا حصہ صہیونی ریاست کی تعمیر کردہ دیوار فاصل کے نیچے آگیا ہے اور کئی دونم اراضی پر یہودی آباد کاروں کے لیے مکانا تعمیر کیے گئے ہیں۔ وہ اپنی مغصوبہ اراضی کو حسرت یاس کی نگاہوں سے دیکھتا ہے۔ بوڑھے فلسطینی مجاھد کی آنکھوں میں ایک ہی وقت میں چمک، آنسو، امید اور خوشی کے آثار دکھائی دیتے ہیں۔
وہ اپنے بیٹے کی جدائی کا سوچ کو دکھی ہوجاتے ہیں۔ زمین پر صہیونی قبضہ انہیں افسردہ کرتا ہے مگر وہ فلسطین کی آزادی کا سپنا بھی اپنی آنکھوں میں بسائے ہوئے ہیں۔
ابوجہاد صرف کسان ہی نہیں بلکہ تعمیراتی کاموں کے بھی ماہر ہیں۔ جب ان سے دیوار فاصل کی دوسری جانب کی اراضی کے بارے میں پوچھا جاتا ہے تو وہ نہایت دکھ اور حسرت بھرے لہجے میں کہتے ہیں کہ’کاش مجھے ایک بار اپنی اراضی میں جانے اور اسے اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ہی میسر آجاتا۔ آج بھی اس اراضی سے میری حسین یادیں وابستہ ہیں۔ مگر صہیونی دشمن نے مجھ سے اور میرے خاندان سے نہ صرف میری اراضی چھین لی بلکہ میرا بیٹا بھی چھین لیا۔
ابو جہاد کا کہنا ہے کہ اسے اچھی طرح یاد ہے کہ صہیونی فوج نے اس کے بیٹے جواد کو 14 دسمبر 2001ء کو سلفیت شہرمیں اس کے پانچ ساتھیوں سمیت گولیاں مار کر شہید کردیا۔
ارض وطن کو کبھی نہ چھوڑنے کا عزم
ابو جہاد نے بتایا کہ قابض صہیونی فوج نےاس کا بیٹا اس سے چھین لیا۔ اراضی غصب کرلی، املاک برباد کردیں، جعلی الزامات کے تحت کئی سال تک پابند سلاسل رکھا گیا۔ قریب تھا کہ میں یہ سب کچھ برداشت کرتے کرتے دنیا سے چلا جاتا۔ جب صہیونی دشمن نے اس کی اراضی غصب کی تو اس نے احتجاج کیا۔ اسرائیلی فوجیوں نے اس کی گود میں ایک بم رکھ دیا اور کہا کہ اگر مزید احتجاج کرو گے تو مار دیے جاؤ گے۔ اسرائیلی ہمیں ہماری ہی زمیوں اور گھروں سے نکال باہرکرنا چاہتے تھے۔ مگر ہم اس وقت بھی ثابت قدم تھے اور آج بھی پورے استقلال کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کئی سال سے قربانیاں دیتے چلے آرہے ہیں۔ آئندہ بھی قربانیاں دیں گے۔ اسی مٹی میں جئیں اور اسی میں مرکر دفن ہوں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی ریاست کی جانب سے ’ارئیل‘ یہودی کالونی وادی ھیاج کی طرف توسیع پذیر ہے۔ اس کی اراضی غصب کرکے اس پر دیوار تعمیر کی گئی۔ یہودیوں نے ان کی اراضی پراپنے قبرستان بنا رہے ہیں۔ اس طرح ان کی اراضی مسلسل سکڑتی چلی جا رہی ہے۔
ابومجاھد کا کہنا ہے کہ صہیونی فوج اب تک ان کی 38 دونم اراضی غصب کرچکے ہیں۔ اس میں سے 21 دونم السنابل کے علاقے سے غصب کی گئی اور اس پر ایک فوجی کنٹرول ٹاور تعمیر کیا گیا۔ اس کنٹرول ٹاور سے سفلیت کے کسانوں پر نظر رکھی جاتی ہے جب وہ کھیتی باڑی کررہے ہوتے ہیں۔
ابو جہاد کا کہنا ہے کہ وہ صرف اپنی اراضی کے چھن جانے پر دکھی نہیں بلکہ مقامی شہریوں کی اراضی کے چھن جانے اور انہیں مسلسل خطرات سے دوچار ہونے پر پریشان ہیں۔ کوئی دن ایسا نہیں جاتا جب فلسطینیوں کی قیمتی زرعی اراضی پرصہیونی ریاست قبضہ کرتی اور وہاں کے قیمتی درختوں، زیتون اور دیگر پھل دار پودوں کے باغات کو تلف کرتی ہے۔