امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے اسرائیل میں قائم امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے مقبوضہ بیت المقدس منتقل کرنے کے اعلان پر عالم اسلام میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق گذشتہ روز اردن کے صدر مقام عمان میں پیشہ ور تنظیموں کے اتحاد ’پروفیشنل الائنس ایسوسی ایشنز‘ کے زیراہتمام ایک احتجاجی مظاہرہ کیا گیا جس میں سیکڑوں شہریوں نے حصہ لیا۔ مظاہرین نے ہاتھوں میں بینرز اور کتبے اٹھا رکھے تھے جن پرامریکی سفارت خانے کی القدس منتقلی کی کوششوں کے خلاف نعرے درج تھے۔
اس موقع پر مظاہرین نے امریکا اور اسرائیل کے خلاف شدید نعرے بازی بھی کی۔ احتجاجی مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے مقررین نے کہا کہ اگر امریکی سفارت خانہ القدس منتقل کیا گیا تو تاریخ کا سنگین جرم تصور کیا جائے گا اور اس جرم کے مرتکب لوگوں کو تاریخ معاف نہیں کرے گی۔
مقررین نے کہا کہ مقبوضہ بیت المقدس فلسطین کا حصہ ہے جسے تمام عالمی ادارے بھی متنازع قرار دے چکے ہیں۔ مقبوضہ بیت المقدس میں امریکی سفارت خانے کی منتقلی تمام عالمی قوانین کی توہین اور بین الاقوامی اداروں کے اصولوں پر حملہ تصور کیا جائے گا۔
مظاہرے سے خطاب کرتے ہوئے پروفیشنل ایسوسی ایشنز کے چیئرمین انجینیر محمود ابو غنیمہ نے کہا کہ ہم پہلے ہی بیت المقدس کے اسٹیٹس کو میں ہونے والی تبدیلیوں کو شبے کی نگاہ سے دیکھ رہے تھے۔ امریکا نے اپنا سفارت خانہ تل ابیب سے القدس منتقل کرنے کا اعلان کرکے صہیونی ریاست کو بیت المقدس میں اپنے غاصبانہ پنجے مزید مضبوط کرنے کا ایک نیا موقع فراہم کردیا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر امریکی حکومت نے سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کیا تو اس کے سنگین نتائج سامنے آئیں گے جس کی تمام تر ذمہ داری امریکا اور اسرائیل ر عاید ہوگی۔
خیال رہے امریکا کے نو منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے کچھ اپنی انتخابی مہم کے دوران اعلان کیا تھا کہ وہ صدر بن کر بیت المقدس کو اسرائیل کا دارالحکومت قرار دیں گے اور تل ابیب میں قائم امریکی سفارت خانہ بیت المقدس منتقل کریں گے۔ اب وہ صدر بن چکے ہیں اور اسرائیل نے بھی امریکی سفارت خانے کی القدس منتقل کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔