فلسطین میں انسانی حقوق کی صورت حال پرنظر رکھنے والے ایک ادارے نے اپنی سالانہ رپورٹ میں بتایا ہے کہ سال 2016ء کے دوران اسرائیلی فوج کے ہاتھوں فلسطینی خواتین کی گرفتاری کے واقعات میں غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ گذشتہ برس اسرائیلی فوج نے فلسطینی شہروں سے 32 نابالغ بچیوں سمیت 208 خواتین کو حراست میں لیا۔ گرفتار کی جانے والی خواتین میں معمر خواتین اور شیرخوار بچوں کی مائیں بھی شامل ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق اسیران اسٹڈی سینٹر سے وابستہ محقق اور ادارے کے ترجمان ریاض الاشقر نے پریس کو جاری رپورٹ میں بتایا کہ گذشتہ برس فلسطینی خواتین کے خلاف اسرائیلی فوج کے کریک ڈاؤن کی ظالمانہ پالیسی میں شدت دیکھی گئی۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ صہیونی فوج نے بچوں، خواتین اور بچیوں کو ہراساں کرنے اور انہیں خوف زدہ کرنے کے لیے ان کی گرفتاریاں کیں۔ کئی خواتین کو چاقو کے حملوں کی منصوبہ بندی کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔
ریاض الاشقر کا کہنا ہے کہ گذشتہ برس اسرائیلی فورسز کی طرف سے فلسطینی اسیران کی بیگمات، ماؤں بہنوں اور دیگر اقارب خواتین کو حراست میں لیا۔ گذشتہ برس ایسی 17 فلسطینی خواتین کو گرفتار کیا گیا جو صہیونی زندانوں میں پابند سلاسل شہریوں کی مائیں، بہنیں یا ان کی بیگمات تھیں۔
ریاض الاشقر کا کہنا تھا کہ بیشتر فلسطینی خواتین کو غرب اردن اور بیت المقدس سے حراست میں لیا گیا۔ ان میں 32 کم عمر بچیاں بھی شامل تھیں۔ گرفتار کی گئی خواتین میں 12 سالہ دیما اسماعیل الواوی شامل ہیں جنہیں چار ماہ تک جیل میں ڈالنے کے بعد رہا کیا گیا۔ گرفتار کی گئی بتیس کم لڑکیوں میں 12 اب بھی صہیونی زندانوں میں قید ہیں۔ کم عمر دو شیزاؤں میں اسکولوں اور یونیورسٹیوں کی 12 طالبات بھی شامل ہیں۔ ان میں جامعہ القدس کی اسلام ابو شرار شامل ہین جنہیں 10 ماہ تک قید وبند میں ڈالا گیا۔ جامعہ نجاح کی 19 سالہ طالبہ انسام عبدالناصر شواھنہ کو اسرائیلی فوجیوں پر چاقو سے حملے کے الزام میں گرفتار کیا گیا اور وہ ھنوز صہیونی جیل میں پابند سلاسل ہیں۔
ریاض الاشقر نے بتایا کہ صہیونی انتظامیہ ایک طے شدہ حکمت عملی کے تحت فلسطینی خواتین او بچیوں کو انتقامی سیاست کا نشانہ بنایا گیا۔