یورپی ممالک میں جہاں ایک طرف حیوانوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں بھیڑیے جیسے خون خوار جانوروں کے تحفظ کے لیے کام کررہی ہیں تو دوسری طرف بھیڑیوں سے عام شہری عدم تحفظ کا شکار ہورہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ براعظم یورپ کے شہریوں نے وہاں کی حکومتوں سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھیڑیوں کے تحفظ کے لیے وضع کردہ قوانین میں ترامیم کریں تاکہ بھیڑیوں کے حملوں کو روکنے کے لیے شہری طاقت کا استعمال کرسکیں ورنہ بھیڑے شہریوں اور ان کے مال مویشی کے لیے وبال جان بنے ہوئے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کی رپورٹس کے مطابق فرانس سمیت کئی یورپی ملکوں کے شہریوں بالخصوص کسانوں، زراعت پیشہ اور گلہ بانی کے پیشے سے وابستہ شہریوں نے شکایت کی ہے کہ تحفظ ملنے کے بعد جنگلات ہی میں بلکہ شہری علاقوں میں بھیڑیوں کی تعداد میں غیرمعمولی اضافہ ہو رہا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق صرف فرانس میں حالیہ چند ماہ کے دوران بھڑیے 9 ہزار بھیڑ بکریاں چیر پھاڑ گئے۔
شہریوں کا کہنا ہے کہ بھیڑیے نہ صرف مویشیوں اور کھیتوں میں اگی فصلوں کے لیے تباہ کن ہیں بلکہ عام شہریوں کی زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔ اس لیے ان کے تحفظ کے لیے قائم کردہ قوانین منسوخ کیے جائیں اور انہیں مارنے کے لیے شہریوں کو مکمل آزادی فراہم کی جائے۔
امریکا کی شمال مغربی ریاست واشنگٹن میں بھی اسی طرح کے مطالبے کے بعد مقامی حکومت نے بھیڑیوں کے تحفظ کے لیے قائم کردہ قانون منسوخ کردیا تھا۔
اعدادو شمار کے مطابق یورپ میں چند ملکوں میں 12 ہزار بھیڑیے موجود ہیں۔ ماحولیاتی تحفظ کے لیے کام کرنے والے ادارے بھڑیوں کو شکار کرنے یا انہیں ہلاک کرنے کے کسی فیصلے پر متفق نہیں ہو پائے ہیں۔
یورپی ملکوں میں ایک صدی قبل بھیڑیوں کو ختم کردیا گیا تھا۔ گذشتہ صدی کے آخری عشرے میں اٹلی میں بھیڑیوں کی افزائش نسل شروع کی گئی تو دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں کی تعداد میں بھیڑیے یورپی ملکوں میں پھیلنے لگے۔