فلسطینیوں کی مسلح مزاحمت کے سفرکے کارواں عزیمت و استقامت میں بے شمار چمکتے ستارے تا ابد خطہ ارض کے افق پر چمکتے رہیں گے۔ ان لازوال چمکتے ستاروں میں تیونس کے فلائیٹ انجینیرمحمد الزواری بھی شامل ہیں،جنہوں نے فلسطینی تحریک مزاحمت کے سفر میں ’ڈرون‘ ٹیکنالوجی کا اضافہ کرکے ایک ایسا روشن باب قائم کیا ہے تحریک مزاحمت کے سفر میں برسوں تک یاد رکھا جائے گا۔
تحریک مزاحمت کے اس تابناک اور دھمکتے ستارا بھی آخر کار صہیونی بگولوں کی نذر ہوا۔ فلسطینی اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے ساتھ وابستگی کے دس سالہ سفر کا ایک دوسرا پہلو ہے۔ وہ پہلو صہیونی ریاست کی دہشت گردی ہے جس کی آگ ہر اس شخص تک پہنچتی ہے جو فلسطینیوں کی خدمت اور ان تحریک آزادی کی جدو جہد کا حصہ ہو۔
حماس کے عسکری ونگ القسام بریگیڈ کی مزاحمتی اور دفاعی آلات کی تیاری کی تاریخ میں محمد الزواری کو بلند مقام حاصل ہے۔
محمد الزواری کون ہیں؟۔ ان کا تحریک مزاحمت حماس کے ساتھ کیا تعلق ہے؟ اور انہوں نے فلسطینی تحریک مزاحمت کی کیا کیا خدمات کی ہیں۔ صہیونی ریاست نے فلسطینی مزاحمت کی تاریخ کے روشن چراغ کو کیوں گل کیا؟۔ اس رپورٹ میں انہی سوالوں کے جوابات دیے جائیں گے۔
اسرائیل کے خلاف مسلح جدو جہد کو بہتر سے بہتر اور زیادہ موثر اور مضبوط بنانے کے لیے فلسطینی مجاھدین دن رات مصروف عمل ہیں۔ ان کا ایک خواب تل ابیب اور القدس کی فضاؤں میں ایسے ڈرون طیاروں کو پہنچانا بھی شامل تھا جو نہ صرف سراغ رسانی کے کام آسکیں بلکہ دشمن کے خلاف مزاحمتی کارروائیوں کا بھی موثر ہتھیار ثابت ہوں۔ فلسطینی مجاھدین اور آزادی کے متوالوں کا یہ خواب محمد الزواری نے شرمندہ تعبیر کیا۔ محمد الزواری خود تو فلسطینی نہیں تھے مگراُنہوں نے اہل فلسطین اور آزادی فلسطین کے لیے فلسطینیوں سے بڑھ کر خدمات انجام دی ہیں۔
فلسطین کا یہ مرد مجاھد صہیونی ریاست کی آنکھوں میں شہتیر کی طرح اور حلق میں کانٹے کی طرح کھٹکنے لگا۔ آخر کار صہیونی اپنے مذموم عزائم کو پایہ تکمیل تک پہنچانے میں کامیاب رہے۔ اگرچہ دشمن الزواری کو توشہید کرکے اپنے سنگین جرائم کی فہرست میں ایک اور جرم کا اضافہ کردیا مگر الزواری اس چراغ کے گل ہونےسے تاریخ تحریک مزاحمت متاثر نہیں ہوگی۔ دشمن کو الزواری کے خون کا بھی حساب دینا ہوگا۔ اسی بات کا عزم حماس کے عسکری ونگ القسام کے جانثاروں نے کیا ہے اور کہا ہے کہ وہ اپنے عظیم مرد مجاھد کے خون کا بدلہ لیں گے۔
محمد الزواری کون تھے؟
القسام کے قائد فلائیٹ انجینیر 49 سالہ محمد الزواری نے آج سے 10 سال قبل القسام میں شمولیت کے بعد اپنے سفر کا آغاز کیا۔ الزواری تیونس کے شہر صفاقس میں جنوری 1967ء کوپیدا ہوئے اور بالی شہر میں اپنی ابتدائی تعلیم کا آغاز کیا۔ اگلے مرحلے میں ھادی شاکر بوائز اسکول میں داخلہ لیا اور میٹرک کی تعلیم اسی اسکول سے مکمل کی۔ یونیورسٹی کی تعلیم صفاقس میں نیشنل انجنینرنگ کالج میں مکینیکل انجینیرنگ کے شعبے میں کی۔
یونیورسٹی کی تعلیم کےدوران الزواری تیونس کی اسلام پسند مذہبی جماعت تحریک النہضہ سے بھی وابستہ ہوئے۔ طلباء تنظیم میں بھی مرکزی کردار ادا کیا۔ تیونس میں فلسطینیوں کی معاونت کے لیے انہوں نے دوسرے طلباء کے ساتھ مل کر گراں قدر خدمات انجام دیں یہاں تک کہ الزواری کی مساعی سے تیونسی طلباء کے ہاں مسئلہ فلسطینی ثانوی درجے سے نکل پہلے درجے میں آگیا۔
تعلیم سےفراغت کے بعد محمد الزواری نے تیونس کی سرکاری فضائی کمپنی میں شمولیت اختیار کی اور ایک فلائیٹ انجینیر کے طور پرکام شروع کیا۔ جنرل الائنس نامی تنظیم میں شمولیت کے باعث تیونس کے سابق صدر زین العابدین بن علی کی حکومت نے انہیں انتقام کا نشانہ بنانے کی پالیسی اپنائی تو وہ ملازمت ترک کرکے 1991ء میں ملک چھوڑ گئے۔
تیونس سے نکل کر لیبیا پہنچے اور چھ ماہ تک وہاں قیام کیا۔ اس کے بعد چھ ماہ شام میں گذارے۔ شام میں قیام کے دوران ماجدہ خالد الزواری نامی شامی خاتون کے ساتھ شادی کی۔
شادی کے کچھ عرصہ بعد الزواری نے سوڈان میں سیاسی پناہ کی درخواست کی اور اپنے متعدد ساتھیوں سمیت خرطوم منتقل ہوگئے۔ وہ چھ سال تک مسلسل سوڈان میں قیام پذیر رہے۔ اس کے بعد لبنان، سعودی عرب اور پھر شام کا سفر کیا۔
ملکوں ملک سفر کے دوران انہوں نے فلسطینیوں سے معاونت کا سفر ترک نہیں کیا۔ اس دورانہوں نے فلسطینی مجاھدین کے ساتھ مل کر ڈرون طیارہ’ابابیل‘ ڈیزائن کیا اور آخر کار وہ اس بغیر پائلٹ کے طیارے کو تیار کرنے میں کامیاب ہوگئے۔ فلسطینی مجاھدین الزواری کے اس عظیم الشان اور بے مثل کارنانے پر ہمیشہ فخر کرتے رہیں گے۔ سنہ 2006ء کے بعد انہوں نے لیبیا، سوڈان اور لبنان کے کئی سفرکیے اور مزاحمتی مقاصد کے لیے ڈورن طیاروں کی تیاری میں بہتر سے بہتر مہارتوں کے حصول کا سفر جاری رکھا۔ تیونس میں سنہ 2010ء میں برپا ہونے والےانقلاب کے بعد وہ وطن واپس لوٹے۔
طیارہ سازی
وطن واپسی سے قبل ہی محمد الزواری ڈرون طیارے تیار کرنے میں مہارت حاصل کرچکے تھے۔ ان کے تیار کردہ ڈورن طیارے سنہ 2014ء کی جنگ میں دشمن کے خلاف استعمال کیے۔ وطن واپسی پر انہوں نے آبائی شہر صفاقس کے نیشنل ایجنینرنگ کالج میں تدریس شروع کردی۔ انہوں نے صفاقس میں فضائی کلب قائم کیا اور فضائی آرگنائزیشن کی بنیاد رکھی۔ اپنے پروگرام کو آگے بڑھانے کے لیے انہوں نے ترکی، لبنان اور شام کا متعدد بار سفر کیا۔
آخری اسٹیشن
الزواری نے اپنا آخری سفر گذشتہ نومبر میں لبنان کا کیا۔ لبنان سے واپسی کے بعد انہوں نے 10 دسمبر کو اپنے طلباء سے آخری ملاقات کی۔
الزواری کی خدمات کے باوجود یہ بات پردہ راز میں تھی کہ وہ فلسطینیوں کے دیسی ساختہ ڈرون طیاروں کے ماسٹر مائینڈ ہیں۔ یہ عقدہ اس وقت کھلا جب 15 دسمبر کو سنہ 2016ء کو دنیا کے بدنام زمانہ ٹارگٹ کلر صہیونی ادارے’موساد‘ کے جاسوسوں نے ان کے گھر کے باہر گولیاں مار کر شہیدکردیا۔
شہید کے جسم میں 4 گولیاں لگیں جو ان کے لیے جان لیوا ثابت ہوئیں۔ شہید کو صفاقس ریاست میں ان کے آبائی علاقے منزل شاکرمیں سپرد خاک کردیا گیا۔ یوں زندگی بھر فلسطینیوں کے لیے خدمات انجام دینے والے تیونسی مجاھد کی زندگی کا چراغ گل ہوگیا۔