اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے سیاسی شعبے کے سربراہ خالد مشعل نے کہا ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کو پوری مسلم امہ کا مرکزی مسئلہ بنانے کے لیے کوشاں ہیں مگر شام کے شہر حلب میں کشت وخون کے لرزہ خیز واقعات اور نہتے شہریوں کے قتل عام نے غیرمعمولی صدمے سے دوچار کیا ہے۔
خالد مشعل نے ان خیالات کا اظہار قطر سے عربی میں نشریات پیش کرنے والے ’الجزیرہ‘ ٹیلی ویژن چینل کے پروگرام’ مقابلہ‘ میں اظہار خیال کرتے ہوئے کیا۔ انہوں نے کہا کہ شام نے 11 سال حماس کی میزبانی کی۔ شامی قوم اور شامی حکومت نے حماس کا بھرپور ساتھ دیا۔ جب شام میں انقلابی تحریک شروع ہوئی تو حماس نے شامی قوم کا شکریہ ادا کرتے ہوئے وہاں سے اس لیے نکل جانے کا فیصلہ کیا تاکہ تحریک انقلاب میں حماس کسی ایک فریق کے ساتھ نہ رہے بلکہ اس ساری صورت حال میں غیر جانب داری کا مظاہرہ کرے۔ اس کے باوجود حماس انسانی حقوق کے باب میں شامی قوم کے ساتھ ہے۔
انہوں نے کہا کہ حماس شام میں کشت وخون کا جلد خاتمہ چاہتی ہے۔ اس کے لیے تمام متحارب فریقین کو لڑائی کے بجائے بات چیت کی راہ اپنانا ہوگی۔
ایک سوال کے جواب میں خالد مشعل کا کہنا تھا کہ ان کی جماعت خطے اور عالمی برادری کے ساتھ متوازن تعلقات کے قیام کے لیے کوشاں ہے۔ حماس کسی ایک ملک کی حمایت کی وجہ سے دوسرے ملک کی حمایت کھونا نہیں چاہتی۔ ہمیں پوری مسلم امہ کی جانب سے مزاحمت کے پروگرام اور تحریک آزادی کے لیے مالی، مادی، عسکری اور سیاسی حمایت اور مدد کی ضرورت ہے۔ حماس کسی ایک ملک کی اہمیت کو نظرانداز نہیں کرسکتی اور نہ ہی کسی سے متثنیٰ ہوسکتی ہے۔
ایک دوسرے سوال کے جواب میں خالد مشعل نے کہا کہ شام میں بغاوت اور عرب ممالک میں بہاریہ کے باب میں حماس کے ایران کے ساتھ اختلافات پیدا ہوئے ہیں مگر اس کے باوجود حماس اور ایران میں روابط موجود ہیں۔ ہم کسی ملک کے داخلی اور خارجی ایجنڈے اور پالیسیوں کے قطع نظر اپنی ضرورتوں میں مدد فراہم کرنے والے ملکوں کے ساتھ رابطوں میں ہیں۔ حماس کسی بھی ملک کے خلاف کوئی محاذ نہیں کھولے گی۔
مصر کے ساتھ تعلقات کے بارے میں بات کرتے ہوئے حماس کے لیڈر کا کہنا تھا کہ مصر عرب ممالک میں ایک وسیع سلطنت ہے اور قضیہ فلسطین کی حمایت میں اس کی اپنی ایک طویل تاریخ ہے۔ حماس برادر ملک مصر کے ساتھ مسئلہ فلسطین کی حمایت ہی کے تناظر میں تعلقات کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔
تحریک آزادی کے حوالے سے حماس کی حکمت عملی کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ حماس نے آزادی اور مزاحمت کے پروگرام میں اپنی پالیسی تبدیل نہیں کی ہے۔ حماس نے تیس سالہ سفر کے دوران آزادی کےجس پروگرام کو اپنایا ہے اسے مزید آگے بڑھانے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لائے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اسرائیلی مظالم، علاقائی سازشوں، بین الاقوامی ریشہ دوانیوں اور مزاحمت اور مذاکرات کی حمایت اور مخالف میں تقسیم ہونے والی فلسطینی قوم نے تحریک آزادی کو نقصان پہنچایا ہے مگر حماس آج بھی وطن عزیز کی آزادی کے لیے جہاد اور مسلح مزاحمت ہی کو حتمی طریقہ کار سمجھتی ہے۔