اسرائیلی پارلیمنٹ [کنیسٹ] نے ایک نئے مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس کے تحت اسرائیل کے بائیکاٹ کی تحریک میں حصہ لینے والے کسی بھی سیاسی، سماجی اور انسانی حقوق کارکن کو اسرائیل کو ویزہ جاری نہیں کیا جا سکے گا۔
اسرائیل کے عبرانی اخبار’’ہارٹز‘‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ صہیونی حکومت نے پارلیمنٹ کے ذریعے بائیکاٹ کی عالمی تحریک کو متاثر کرنے کے لیے ایک نئی اسکیم شروع کی ہے۔ اسی اسکیم کے تحت پارلیمنٹ سے ایک ایسا قانون منظور کرانا بھی شامل تھا جس کے ذریعے دنیا کو یہ پیغام دینا تھا کہ کسی بھی دوسرے ملک میں رہنے والا ایسا کوئی شخص جو اسرائیلی ریاست کے بائیکاٹ کی تحریک میں پیش پیش رہا ہو اسے اسرائیل کا ویزہ جاری نہیں جائے گا۔
عبرانی اخبار کے مطابق گذشتہ روز پارلیمنٹ نے سادہ اکثریت کے ساتھ مسودہ قانون پر پہلی رائے شماری کرائی جس میں کثرت رائے سے قانون منظور کیا گیا ہے تاہم قانون پرمزید بحث کی جائے گی اور دوبارہ رائے شماری کے بعد اسے نافذ العمل کردیا جائے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عالمی سطح پر اسرائیلی مصنوعات، اسرائیلی حکومت اور اس کے ریاستی اداروں کے بائیکاٹ کی کئی تحریکیں چل رہی ہیں جن میں نامی گرامی سماجی اور سیاسی کارکن بھی حصہ لے رہےہیں۔ اس قانون کی منظوری کے ذریعے ان بائیکاٹ کی مہم چلانے والوں کو یہ پیغام دینا ہے کہ ان کے لیے اسرائیل کا وزٹ آسان نہیں ہوگا۔ ایسے کسی بھی شخص کو ویزہ جاری نہیں کیاجائے گا جو اسرائیل کے خلاف بائیکاٹ کی کسی بھی تحریک میں شامل رہا ہو۔ تاہم اس قانون کی ایک شق میں یہ بات شامل کی گئی ہے کہ اسرائیلی وزارت داخلہ استثنائی کیسز میں ایسے افراد کو ویزے جاری کرنے کی سفارش کی مجاز ہوگی جن کی آمد سےاسرائیل کو فائدہ پہنچ سکتا ہے۔