اسرائیلی کابینہ نے فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس اور سنہ 1948ءکے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں موجود تمام مساجد بہ شمول مسجد اقصیٰ میں لاؤڈ اسپیکروں پر اذان دینے پر پابندی عاید کرنے کے ایک متنازع قانون کی منظوری دی ہے۔ دوسری جانب فلسطینی مذہبی اور عوامی حلقوں نے صہیونی کابینہ کے قانون کو مسترد کردیا ہے۔ مذہبی حلقوں نے مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پراذان دینے پرپابندی کو شعائر اسلام پر ایک اور صہیونی وار قرار دیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق کل اتوار کی شام کو وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی زیرصدارت صہیونی کابینہ کے اجلاس کے دوران دو اہم فیصلے کیے گئے۔ اجلاس میں مسجد اقصیٰ سمیت بیت المقدس کی تمام مساجد میں لاؤڈ اسپیکر پراذان دینے پرپابندی عاید کرنے کے ساتھ ساتھ غرب اردن میں ایک غیرقانونی یہودی کالونی کو قانونی حیثیت دے کروہاں یہودی آباد کاری کے لیے راہ ہموار کردی گئی۔
عبرانی اخبار ’’ہارٹز‘‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ بیت المقدس کی مساجد میں اذان دینے پر پابندی کا متنازعہ قانون شدت پسند مذہبی جماعت ’’جیوش ہوم‘‘ کے رکن کنیسٹ موتی یوگیو اور دیگر انتہا پسند یہودی ارکان کی طرف سے پیش کیا گیا تھا۔ مسودہ قانون میں کہا گیا تھا کہ حکومت بیت المقدس میں مساجد میں لاؤڈ اسپیکروں پر اذان دینے پر پابندی عاید کرے۔ کابینہ سے منظوری کے بعد مسودہ قانون پارلیمنٹ میں رائے شماری کے لیے پیش کیا جائے گا۔
عبرانی اخباری رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اسرائیل میں پہلے سے ’’انسداد شور وغوغا‘‘ نامی ایک قانون موجود ہے۔ صہیونی ریاست اسی قانون کی آڑ میں مساجد میں اذان دینے پر پابندی کی سازشیں کررہی ہے۔ نئے قانون کی منظوری کے بعد اسرائیلی پولیس کو مساجد کے آئمہ اور موذنین حضرات کے خلاف سخت ترین قانونی کارروائی کرنے، انہیں حراست میں لینے، جیل میں قید کرنے اور بھاری جرمانے کرنے کا بھی اختیار مل جائے گا۔
قبل ازیں جب اس متنازع قانون کی بحث چھڑی تو صہیونی وزیراعظم نیتن یاھو نے بھی مساجد میں بلند ہونے والی اللہ اکبر کی صدا کو ’’شور وغوغا‘‘ قرار دیتے ہوئے اذان پر پابندی عاید کرنے کی حمایت کی تھی۔
نئے قانون کا اطلاق نہ صرف بیت المقدس کی تمام مساجد میں ہوگا بلکہ سنہ 1948ء کے دوران قبضے میں لیے گئے فلسطینی علاقوں میں موجود مساجد پر بھی ہوگا۔ فلسطین کے مذہبی حلقوں کی طرف سے متنازعہ قانون کی شدید مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ اسے نسل پرستانی، فاشسٹ اور فلسطینیوں کے مذہبی امور میں کھلی مداخلت قرار دیا جا رہا ہے۔
فلسطینی اسلامی تحریک کی طرف سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صہیونی کابینہ کی طرف سے اذان پرپابندی کا فیصلہ شعائر اسلام پر صہیونی نسل پرستوں کا حملہ قرار دیا ہے۔
ادھر گذشتہ روز ہونے والے ایک اجلاس میں صہیونی ریاست نے ایک دوسرے مسودہ قانون میں قرار دیا ہے کہ تعمیر شدہ یہودی کالونیوں میں اگر کوئی شخص اپنی نجی اراضی کی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے تو اس کا دعویٰ قبول نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کی اراضی کو اسرائیل کی سرکاری اراضی قرار دیاجائے گا۔ تا وقتیکہ اس بات کا تعین کیا جاسکے کہ آیا اس علاقے کا مستقبل کیا ہوگا۔ آیا اسے فلسطینی اتھارٹی کے زیرانتظام رکھا جائے گا یا صہیونی ریاست میں ضم کیا جائے گا۔