چین میں کنٹرلنگ ٹیکنالوجی کی ترقی نے طب اور علاج کے شعبے میں ایک نئی سہولت مہیا کی ہے، جس کے بعد چین روبورٹس کی مدد سے مریضوں کا علاج کرنے والا دنیا کا پہلا ملک بن گیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق چینی حکومت نے رواں سال کے اوائل میں اسپتالوں میں انسان ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ روبورٹ ڈاکٹر بھی متعارف کرائے۔ یہ روبورٹ مریضوں کے امراض کی تشخیص کے ساتھ ساتھ ان کے علاج میں بھی مدد و معاون ثابت ہو رہے ہیں۔
ذرائع ابلاغ کے مطابق چین میں ٹیکنالوجی کی صنعت تیز رفتاری کے ساتھ ترقی کی منازل طے کررہی ہے۔ گذشتہ کچھ عرصے سے چینی حکومت نے مختلف شعبہ جات میں روبورٹس سے مدد لینا شروع کی تھی۔ اب چینی حکومت نے طب اور علاج معالجے کے میدان میں بھی روبورٹ ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کردیا ہے۔
چین کے کئی اسپتالوں میں ’’تھری ڈی ویژن سسٹم‘‘ کی ٹیکنالوجی علاج کے لیے استعمال کی جا رہی ہے جو الیکٹرک دھاگوں اور انسانی ہاتھ سے زیادہ صفائی اور باریکی کے ساتھ سرجری جیسے علاج کے اہم مراحل کا علاج کرنے میں مدد گار ہیں۔
بیجنگ میں انٹرنیشنل میڈیکل انسٹیٹیوٹ کے مطابق دارالحکومت کے اسپتالوں میں گذشتہ دو ماہ کے دوران 75 روبورٹ ڈاکٹر لائے گئے ہیں جنہوں نے دو ماہ کے دوران سرجری کے 30ہزار کیسز کا علاج کرنے میں مدد دی ہے۔
روبوٹ ٹیکنالوجی حساس نوعیت کی سرجری مثلا رسولی کے خاتمے اور جسم کے اندرونی حصوں کی سرجری اور ’’اوپن ہارٹ‘‘ سرجری جیسے کیسز کے میں مدد کررہے ہیں۔
چین کی ربورٹ انڈسٹریل یونین کا کہنا ہے کہ چین میں ایک سال کے دوران روبورٹ سے 7 ارب ڈالر کا زر مبادلہ کمایا جارہا ہے۔ رواں سال کی دوسری ششماہی کے دوران اس میں 15 فی صد اضافے کی توقع ہے۔
اگرچہ چین میں روبورٹ ڈاکٹروں کی جگہ لے رہے ہیں مگر اب بھی بڑی تعداد میں اسپتالوں میں انسانی ڈاکٹرہی کام کرتے ہیں۔ البتہ چین کے اسپتالوں میں روبورٹ ڈاکٹروں کے بڑھتے رحجان نے روایتی ڈاکٹر اپنی ملازمتوں کو خطرے میں سمجھنے لگے ہیں۔ ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ چین میں عام شہریوں میں بھی تشویش پائی جا رہی ہے کیونکہ روبورٹ کی مدد سے کیا جانے والا علاج بہت مہنگا ہے۔ بعض کیسز میں ایک علاج پر 20 ہزار ڈالر تک لاگت آتی ہے۔