فلسطینی اتھارٹی کے سربراہ محمود عباس نے تحریک فتح کے بانی رہ نما یاسر عرفات کی وفات کے 12 سال کے بعد پہلی بار دعویٰ کیا ہے کہ وہ یاسر عرفات کے قاتلوں کو جانتے ہیں تاہم انہوں نے عرفات کے کسی قاتل کی شناخت ظاہر نہیں کی، جس کے نتیجے میں نئے شکوک وشبہات پیدا ہونے لگے ہیں۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق یاسر عرفات کی وفات کے 12 سال بعد ان کی برسی کے موقع پر منعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے صدر عباس نے کہا کہ یاسر عرفات کو شہید کرنے والوں کو جانتا ہوں اور جلد ہی ان کی شناخت ظاہر کرکے قاتلوں کو حیران کردوں گا۔
صدر عباس کا کہنا تھا کہ فلسطینی لیڈر مرحوم ابو عمار کے قتل کی تحقیقات کا سلسلہ ختم نہیں ہوا بلکہ اب بھی جاری ہے۔ یاسر عرفات کے قتل کی تحقیقات کے لیے قائم کردہ تحقیقاتی کمیشن نے ملزمان کی شناخت میں اہم سنگین میل طے کیا ہے اور ہم حقیقت تک پہنچ گئے ہیں۔ جب کمیشن حتمی نتائج کا اعلان کرے گا تو پوری قوم کو پتا چل جائے گا کہ یاسر عرفات کو کس نے شہید کیا تھا۔
خیال رہے کہ فلسطینی صدر نے بارہ سال میں پہلی بار کھل کر یاسرعرفات کے قتل سے متعلق بیان دیا ہے۔ صدر کے پراسرار بیان میں ملزمان کی شناخت ظاہرنہیں کی گئی جس نے کئی نئے سوالات بھی جنم دیے ہیں۔
اسرائیل کے ساتھ امن بات چیت بارے بات کرتے ہوئے محمود عباس نے صہیونی ریاست کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا۔ انہوں نے کہا کہ امن بات چیت میں رکاوٹ اسرائیل ہے جو پہلے سے طے شدہ معاہدوں پرعمل درآمد کے پہلو تہی اختیار کرنے کے ساتھ ساتھ فلسطینی اراضی غصب کرنے اور اس پر غیرقانونی یہودی بستیاں تعمیر کرنے کا متنازع سلسلہ جاری رکھے ہوئےہے۔
انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی نے عالمی سطح پر اسرائیل۔ فلسطین تنازع کے حل کے لیے ہمیشہ مثبت رد عمل کا اظہار کیا مگر صہیونی ریاست کے قیام امن کی ہر سنجیدہ کوشش کی مخالفت کی۔ جس کی تازہ مثال فرانس کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں عالمی امن کانفرنس میں شرکت سے انکار بھی پیش کی جاسکتی ہے۔