جمعه 15/نوامبر/2024

پارلیمانی تحفظ سلب کرنے کااختیار صدر کو دینے کا عدالتی فیصلہ باطل قرار

پیر 7-نومبر-2016

فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت دستوری عدالت کی طرف سے ارکان پارلیمان کو آئینی طور پرحاصل پارلیمانی تحفظ سلب کرنے کا اختیار صدر محمود عباس کو دیے جانے پر ملک کے سیاسی حلقوں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔ عدالتی فیصلے پراپنے رد عمل میں اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ اور فلسطینی پارلیمنٹ نے سخت تنقید کرتے ہوئے رام اللہ اتھارٹی کی عدالت کے فیصلے کو آئین سے متصادم قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق گذشتہ روز فلسطینی اتھارٹی کے ماتحت دستوری عدالت نے ایک فیصلے میں صدر محمود عباس کو یہ اختیار دیا ہے کہ وہ چاہئیں تو کسی بھی منتخب رکن پارلیمنٹ کو حاصل آئینی تحفظ ختم کرسکتے ہیں اور کسی بھی رکن پارلیمنٹ کے خلاف فوج داری نوعیت کے کیسز چلانے کی اجازت دی جاسکتی ہے۔

عدالتی فیصلے کے رد عمل میں حماس، اسلامی جہاد، دیگر سیاسی جماعتوں اور پارلیمنٹ نے شدید مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ عدالتی فیصلے کی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں ہے۔ یہ فیصلہ فلسطینی آئین اور قانون کی رو سے قطعا باطل اور بے بنیاد ہے اور فلسطینی سیاسی قوتیں اس فیصلے کو تسلیم نہیں کریں گی۔

فلسطینی پارلیمنٹ کے ڈپٹی اسپیکر ڈاکٹر احمد بحر نے دستوری عدالت  کے فیصلے کو فلسطینی اتھارٹی کی آمریت کا مظہرقرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی اتھارٹی کی دستوری عدالت کی طرف سے صدر محمود عباس کو پارلیمان کے اختیارات دینا اور کسی بھی رکن پارلیمنٹ کو حاصل آئینی تحفظ سلب کرنے کا اختیا سونپنا پارلیمنٹ کی حیثیت کو متنازع بنانے کی مذموم کوشش ہے۔ ایک طرف فلسطینی اتھارٹی کی آمرانہ پالیسیوں کے نتیجے میں منتخب پارلیمنٹ عضو معطل بن کر رہ گئی ہے اور دوسری طرف فلسطینی نام نہاد عدالتیں پارلیمنٹ کے اختیارات ایک سازش کے تحت صدر کو منتقل کرکے ملک میں آمریت کو فروغ دے رہی ہیں۔

خیال رہے کہ فلسطینی پارلیمنٹ سنہ 2007ء میں اس وقت تعطل کا شکار ہوگئی تھی جب صدر محمود عباس نے حماس کے ارکان کی اکثریت کی آڑ میں پارلیمنٹ کا اجلاس بلانے سے انکار کردیا تھا۔

دستوری عدالت کا فیصلہ باطل اور آئین سے متصادم

درایں اثناء اسلامی تحریک مزاحمت ’’حماس‘‘ نے فلسطینی اتھارٹی کی دستوری عدالت کی جانب سے صدر محمود عباس کو ارکان پارلیمان کو حاصل آئینی تحفظ ختم کیے جانے کی شدید مذمت کی ہے۔ حماس کے ترجمان سامی ابو زھری نے ایک بیان میں کہا ہے کہ دستوری عدالت کا فیصلہ باطل اور آئین سے متصادم ہے۔ اسے کسی صورت میں قبول نہیں کیا جاسکتا۔

ترجمان نے کہا کہ حماس فلسطین کی دستوری عدالت کو آئینی نہیں سمجھتی۔ اس لیے اس کے فیصلوں کی بھی کوئی آئینی اور قانونی حیثیت نہیں ہے۔ عدالتی فیصلہ صرف تحریک فتح کی بالادستی قائم کرنے کی کوشش ہے۔ تحریک فتح نام نہاد عدالتوں کو استعمال کرکے فلسطینی پارلیمنٹ، اتھارٹی اور دیگر تمام اداروں پراپنی اجارہ داری قائم کرنا چاہتی ہے۔ مگر حماس اور دیگر فلسطینی قوتیں تحریک فتح کو ایسی کسی سازش میں کامیاب نہیں ہونے دیں گی۔

مختصر لنک:

کاپی