فلسطین میں ایک سال سے جاری تحریک انتفاضہ القدس میں جہاں صہیونی ریاست کی منظم دہشت گردی کے نتیجے میں اڑھائی سو فلسطینی شہید اورڈیڑھ ہزار کے لگ بھگ زخمی ہوئے ہیں وہیں اس تحریک کے مثبت اور زمین پر موثر عملی اثرات بھی سامنے آئے۔ ایک رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ انتفاضہ القدس کے ایک سال کے دوران ہرچار میں سے ایک یہودی فلسطین چھوڑنے پر غور کر رہا ہے۔ یہ انتفاضہ کی برکت اور اس کے مثبت نتائج میں سے ایک اہم نتییجہ ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین نے اسرائیلی ذرائع ابلاغ میں ہونے والے رائے عامہ کے جائزوں پر مبنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ فلسطینی تحریک انتفاضہ نے غاصب اور بزدل صہیونیوں میں خوف کے گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ عبرانی نیوز ویب پورٹل’وللا‘ نیوز کے زیراہتمام کئے گئے ایک تازہ سروے میں بتایا گیا ہے کہ 25 فی صد صہونیوں کا خیال ہے کہ تحریک انتفاضہ القدس مزید کئی سال جاری رہتی سکتی۔ انتفاضہ کے تسلسل میں ان کے لیے سلامتی کی ضمانت نہیں دی جاسکتی۔ اس لیے وہ ملک چھوڑنے پر غور کررہےہیں۔ سروے جائزے میں 646افراد کی رائے لی گئی۔ رائے دہندگان میں تمام شعبہ ہائے زندگی کے افراد شامل ہیں۔ رپورٹ میں ایک سوال فلسطین۔ اسرائیل امن معاہدے کے امکانات کےبارے میں بھی پوچھا گیا۔ اس کے جواب میں 64 فی صد یہودیوں کا کہنا تھا کہ انہیں فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان کسی امن سمجھوتے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ جب کہ 24 فی صد کا خیال ہے کہ اگلےپانچ سال کے دوران فلسطینی قوم اور اسرائیل کے درمیان کوئی امن سمجھوتہ طے پاسکتا ہے۔
اس سروے رپورٹ پر فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر عبدالستار قاسم نے مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سروے جائزے کے نتائج تحریک انتفاضہ القدس کے اثرات کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ فلسطینی شہریوں کی طرف سے چاقو حملوں کے اتنے گہرے خوف اور اس کے اثرات کا پایا جانا انتفاضہ کی کامیابی کا سب سے بڑا ثبوت ہے۔ ہر چار میں سے ایک اسرائیلی کا فلسطین چھوڑنے پر غور کرنے کا اعلان اس بات کا غماز ہے کہ اگر انتفاضہ جاری رہتی ہے تو فلسطین سے نکلنے پر غور کرنے والے یہودیوں کی تعداد میں کئی گنا اضافہ ہوسکتا ہے۔
اسرائیلی تجزیہ نگار گیدعون لیوی کاکہنا ہے کہ فلسطینیوں کے چاقو حملوں کے خوف سے اسرائیلیوں کے معمولات زندگی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ یہودی اپنےکام کاج، کاروبار اور بازاروں میں خریدو فروخت کے لیے جانے سے خوف زدہ ہیں۔ وہ فلسطینی چاقو برداروں کو ٹائم بم سمجھتے ہیں جو کسی بھی وقت ان کے قریب پھٹ سکتا ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار ڈاکٹر بلال الشوبکی کا کہنا ہے کہ پچھلے ایک سال کے دوران تحریک انتفاضہ القدس کسی لیڈرشپ کے بغیر ہی چلتی رہی ہے۔ اگر اس تحریک کو منظم قیادت میسر آجائے تو اس کے نتائج اور اثرات موجودہ اثرات سے کہیں زیادہ موثر ہوسکتے ہیں۔