فلسطینی حکومت نے گذشتہ روز سپریم کورٹ کا ایک متنازعہ فیصلہ سامنے آنے کے بعد بلدیاتی انتخابات چار ماہ کے لیے موخر کرنے کا اعلان کیا ہے۔ دوسری جانب ملک کی سب سے بڑی مذہبی سیاسی جماعت اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ نے انتخابات کے التواء کا فیصلہ غیرجمہوری قرار دے کر مسترد کردیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق فلسطینی وزیراعظم رامی الحمد اللہ نے غرب اردن کے جنوبی شہر الخلیل میں منعقدہ کابینہ کے ایک ہنگامی اجلاس کے دوران اعلان کیا کہ الکیکشن کمیشن اور دیگر اداروں سے مشاورت کے بعد فیصلہ کیا گیا ہے کہ فلسطین میں بلدیاتی انتخات 8 اکتوبر کے بجائے چار ماہ کی تاخیر سے ہوں گے۔ وزیراعظم نے کہا کہ انتخابات ملتوی کرنے کا فیصلہ صدر محمود عباس کی مشاورت سے کیا گیا ہے۔
وزیراعظم نے کہا کہ انتخابات کے انعقاد میں چار ماہ کی تاخیر انتخابات کے لیے درکاری قانونی اور جمہوری ضمانتوں کو پورا کرنے اور انتخابات کے لیے فضاء سازگار بنانے کے لیے کی گئی ہے۔
قبل ازیں فلسطینی الیکشن کمیشن نے سپریم انتخابات چھ ماہ کے لیے موخر کرنے کی تجویز پیش کی تھی جب کہ فلسطینی سپریم کورٹ نے ایک فیصلے میں بلدیاتی انتخابات صرف غرب اردن میں کرانے کا حکم دیا تھا۔ فلسطینی سپریم کورٹ کے فیصلے پر ملک کی بیشتر سیاسی جماعتوں کی طرف سے شدید رد عمل سامنے آیا ہے۔
ادھر دوسری جانب بلدیاتی انتخابات چار ماہ کے لیے ملتوی کیے جانے پر حماس نے سخت رد عمل ظاہر کرتےہوئے تاخیر کا فیصلہ مسترد کردیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق حماس کے ترجمان سامی ابو زھری اور فوزی برھوم نے ایک مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کی طرف سے غزہ میں انتخابات نہ کرانے کا حکم دینا ایک سیاسی فیصلہ ہے جب کہ فلسطینی حکومت کی طرف سے انتخابات کو چار ماہ کے لیے ملتوی کرنا مخصوص جماعت کو نوازنے کی کوشش ہے۔ انہوں نے کہا کہ فلسطینی حکومت کو بلدیاتی انتخابات میں اپنےپروردہ سیاسی گروپوں کی شکست نوشتہ دیوار دکھائی دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ بار بار کبھی الیکشن کا معاملہ عدالت میں لے جاتی اور کبھی تاخیری حربے استعمال کرتی ہے۔
فوزی برھوم نے کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں تاخیری حربوں سے فلسطینی اتھارٹی اور حکومت کے غیرجمہوری رویے کا اظہار ہوتا ہے۔ حماس اس فیصلے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے جلد از جلد بلدیاتی انتخابات کا انعقاد کرانے کا مطالبہ کرتی ہے۔