عید خوشی کا موقع ضرور ہے مگر ان لوگوں کے لیے جو آزادی کی فضاء میں سانس لیتے ہوں مگر ایک غاصب اور قابض ظالم کے ٹارچرسیلوں، کال کوٹھڑیوں میں پابہ زنجیر ہوں، جنہیں تنگ وتاریک غارنما تہ خانوں میں ڈالا گیا ہو اور انہیں یہ بھی معلوم نہ ہو سکے کہ سورج کب طلوع اور کب غروب ہوا۔ ایسے ستم رسیدہ قیدیوں کے لیے عید آئے اور گذر جائے تو وہ اس کی خوشی کیسے منائیں گے؟ ان کے لیے تو عید کا دن ایک نئی اذیت کا پیغام لے کرآتا ہے، جو اپنے والدین، بچوں، بہن بھائیوں، عزیزوں دوستوں سے دور زندانوں میں پابند سلاسل ہوں بھلا وہ عید کا لطف کیسے اٹھا سکتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی کیفیت اس وقت اسرائیل کے ڈیڑھ درجن حراستی مراکز اور ٹارچرسیلوں میں بند 7000 فلسطینی اسیران کی ہے جو دن رات صہیونی ریاست کے بدترین مظالم کا شکار ہیں۔
اپنے معمول کے مطابق اس سال بھی عید الاضحیٰ آئی اور معمول کے مطابق رخصت ہو گئی مگر اہل فلسطین کے زخم ایک بار پھر تازہ ہوگئے۔ یہ سات ہزار فراد کی بات نہیں بلکہ سات ہزار خاندانوں کی داستان خوں چکاں ہے۔ ہزاروں دوستوں کی محبت کا خون ہے کہ صہیونی زندانوں میں جس کا مظاہرہ دیکھنے کو مل رہا ہے۔
عید قربان آئی تو جہاں اسرائیلی زندانوں اور ٹارچر سیلوں میں قید فلسطینیوں کو اپنے پیاروں سے دوری کے ستم نے ستایا تو دوسری جانب ان کے اہل خانہ بھی آنسو بہاتے اور اپنے اسیر پیاروں کی یاد میں عید گذارنے اور دکھ بانٹنے کی کوشش کرتے رہے۔
اس وقت اسرائیلی ٹارچر سیلوں میں سات ہزار فلسطینی پابند سلاسل ہیں۔ سیکڑوں فلسطینی کئی کئی بار کی عمر قید کا سامنا کر رہے ہیں۔ ان میں 400 سے زاید بچے ہیں جب کہ ایک درجب کم عمر بچیوں سمیت 60 خواتین پابند سلاسل ہیں۔
مخلوط جذبات
عید آتے ہی فلسطینی شہریوں کی کوشش ہوتی ہے کہ وہ اسرائیلی زندانوں میں قید اپنے پیاروں سے ملاقات کریں۔ فلسطینی شہری صہیونی انتظامیہ کے رحم وکرم پرہوتے ہیں کہ وہ چاہیں تو کسی اسیر سے اس کے اعزہ و اقربہ کی ملاقات کرائیں چاہیں تو بار بار چکر لگوانے کے بعد بھی ان کی ملاقات نہ ہونے دیں۔ فلسطینیوں کا کہنا ہے کہ وہ عید کے موقع پر مخلوط قسم کے جذبات رکھتے ہیں جہاں انہیں اپنے اسیر پیاروں سے ملاقات کی توقع کی خوشی ہوتی ہے وہیں پیاروں سے دوری اور اسیری کا دکھ اندر ہی اندر سے کھائے جا رہا ہوتا ہے۔
اسرائیلی حراستی مراکز میں قید 20 سالہ طالب علم مراد عزالدین کے والد عزالدین نے مرکزاطلاعات فلسطین کو بتایا کہ انہوں نے ریڈ کراس اور اسیر کے وکیل کے توسط سے مراد سے ملاقات کی کوشش کی تو انہوں نے اطمینان دلایا کہ عید پر ان کی بیٹے سے ملاقات کا اہتمام کرایا جائے گا۔ مگر جب صہیونی انتظامیہ سے بات کی گئی تو کہا گیا کہ وہ فی الحال زیرتفتیش ہے۔ اس لیے اس کے ساتھ ملاقات کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ جب تک تفتیش جاری ہے مراد سے اس کا کوئی عزیز ملاقات نہیں کر سکتا۔
مراد کے والد نے بتایا کہ ان کے بیٹے کے وکیل کو بھی عید پراپنے موکل سے ملاقات کی اجازت نہیں دی گئی، ہم یہ بھی نہیں جان سکے ہیں کہ مراد کس حال میں ہے۔ اس کی صحت کیسی ہے اور اسے دوران حراست تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے۔
اسیر کی والدہ ام نضال کا کہنا ہے کہ مراد کی جدائی کا دکھ ناقابل برداشت ہے۔ ہم عید کے موقع پر مراد کی اسیری کے غم میں مبتلا رہے۔ ماضی میں ہم عید پر خوشی مناتے اور خوبصور وقت گذارتے۔ مراد اپنے ہاتھ سے انواع واقسام کے کیک اور کھانے بناتا۔ مگر اس وقت وہ پس دیوار زنداں ہے اور ہم جیل سے باہر اس کے دکھ میں ہلکان ہیں۔
خیال رہے کہ مراد فتاش کو اسرائیلی فوج نے سلفیت شہر جاتے ہوئے جنوبی نابلس کی الزعترہ چیک پوسٹ سے 26 اگست 2016ء کو حراست میں لیا تھا۔ اس کی گرفتاری کی وجہ اب تک نہیں بتائی گئی۔
قبرنما قید خانے
کلب برائے اسیران نامی تنظیم فلسطین میں اسیران کے حقوق کے لیے کام کرتی ہے۔ کلب کی طرف سے جاری کردہ ایک رپورٹ میں اسرائیلی زندانوں میں قید فلسطینیوں کی حالت اور جیلوں کی حالت پر روشنی ڈالی ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ عیدالاضحیٰ کے موقع پر فلسطینی اسیران جیلوں میں عید منانے کی کوشش کرتے ہیں مگر اس بار صہیونی انتظامیہ نے سیکڑوں فلسطینیوں کو اجتماعی عید کا اہتمام کرنے سے روکنے کے لیے انہیں قبر نما تنگ وتاریک گڑھوں میں ڈال رکھا ہے جہاں انہیں ادنیٰ درجے کے بنیادی حقوق بھی میسر نہیں ہیں۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ القدس بریگیڈ کے اسیر رکن انس جرادات کو 35 مرتبہ عمر قید کی سزا کا سامنا تو تھا ہی مگرحال ہی میں اسے ایک تنگ وتاریک کوٹھڑی میں ڈال دیا گیا اور اس کے اہل خانہ کو اس سے ملنے سے روک دیا گیا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ نام نہاد سیکیورٹی وجوہات کی آڑ میں اسرائیلی انتظامیہ اور جیلر فلسطینی ملاقاتیوں کو قیدیوں سے ملنے سے روک دیتے ہیں۔ یہ سلسلہ اب معمول بن چکا ہے۔ عید جیسےخوشی کے مواقع پر جیلوں کے باہر ملاقاتیوں کا ایک جم غفیر جمع ہوتا ہے مگر بہت کم ہی کسی کو قیدیوں سے ملنے اور ان سے دوچار باتیں کرنے کی اجازت دی جاتی ہے۔
صہیونی انتظامیہ قیدیوں تک ملاقاتیوں کی رسائی روکنے کے لیے قیدیوں کو تنہائی میں ڈال دیتے ہیں جس کے بعد یہ بہانا اور جواز تراشا جاتا ہے کہ اسیر قید تنہائی میں ہے جسے ملنے کی اجازت نہیں۔ وہ قید تنہائی کیسی ہوتی ہے اس کا بیان بھی بہت مشکل ہے۔ ایسے گندے، تنگ اور تاریک کمرے جن میں کیڑے مکوڑوں کے سوا اورکسی چیز کا گذر نہیں ہوتا۔ نہ سورج کی کوئی رکن دکھائی دیتی ہے اور نہی باہر کی دنیا کی کوئی آواز ان تک پہنچتی ہے۔ وہ اسی حال میں وقت کاٹتے ہیں۔ نہ سیدھے کھڑے ہو سکتے ہیں۔ نہ بیٹھ سکتے اور نہ ہی لیٹ سکتے ہیں۔