فلسطین کی سب سے بڑی سیاسی جماعت اور مقبوضہ مغربی کنارے کی حکمراں تحریک فتح کی صفوں میں سامنے آنے والے انتشار نے جماعت کو مزید منتشر کردیا ہے جس کے نتیجے میں تحریک فتح آٹھ اکتوبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کرانے کی کوشش کررہی ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کو تحریک فتح کے ایک ذمہ دار ذرائع نے اپنی شناخت ظاہرنہ کرتے ہوئے بتایا کہ تحریک فتح میں پھوٹ نے جماعت کی قیادت کو بلدیاتی انتخابات ملتوی کرانے پرمجبور کیا ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ حال ہی میں رام اللہ میں تحریک فتح کی سرکردہ قیادت کے اجلاس کے دوران شرکاء کی اکثریت نے بلدیاتی انتخابات منسوخ کا ملتوی کرنے کا مطالبہ کیا۔
ذرائع کا مزید کہنا ہے کہ غرب اردن میں تحریک فتح کی عوامی مقبولیت پہلے ہی کم تھی مگر بلدیاتی انتخابات کی مہم کے دوران امیدواروں کے تقرر پرتحریک فتح مزید پھوٹ کا شکار ہوئی ہے جس کے نتیجے میں اس کی عوامی مقبولیت کا گراف مزید گر گیا ہے۔ تحریک فتح کو اپنی شکست نوشتہ دیوار دکھائی دے رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے انتخابی عمل کو تعطل کا شکار کرنے کی منصوبہ بندی شروع کی ہے۔
خیال رہے کہ غزہ کی پٹی اور غرب اردن میں تحریک فتح کی نچلی سطح کی قیادت اور کارکنان نے جماعت کے سرکردہ رہ نماؤں پر سخت تنقید کی ہے۔ غزہ میں تحریک فتح کے دسیوں کارکنان نے اجتماعی استعفے بھی دے دیے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جماعتی رہ نما مخصوص لوگوں کو بلدیاتی انتخابات کے لیے اپنے نمائندے مقرر کررہے ہیں۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ تحریک فتح کے رام اللہ میں منعقدہ اجلاس میں اس بات پرغور کیا گیا کہ آیا صدارتی اعلان کے مطابق بلدیاتی انتخابات کو ان کی مقررہ تاریخ پر انعقاد سے روکنے کا کیا ذریعہ ہوسکتا ہے۔ اس ضمن میں صدر محمود عباس سے بھی بات چیت کی جائے گی۔
اجلاس کے دوران تحریک فتح کے بعض رہ نماؤں نے تجویز دی کہ انتخابی مہم ک دوران حماس کی طرف سے کسی سیاسی رکاوٹ کو بنیاد بنا کر بلدیاتی انتخابات کو ملتوی کرایا جاسکتا ہے۔
اجلاس کے دوران یہ بھی کہا گیا کہ صدر محمود عباس کسی ٹھوس سبب کے بغیر انتخابات کو ملتوی کرنے کے مجاز نہیں ہیں۔ سب کی نظریں اس وقت حماس پرلگی ہیں۔ اگر حماس کی طرف سے کوئی سیاسی غلطی سرزد ہوتی ہے تو اس کو بنیاد بنا کر انتخابات کو غیرمعینہ مدت تک کے لیے ملتوی کرنے کی درخواست کی جائے گی۔