صہیونی ریاست اور نسل پرستی دونوں لازم و ملزوم ہیں۔ جہاں نسل پرستی ہو گی وہاں یقینا صہیونی ریاست کے مظالم پر بات ہو گی اور جہاں صہیونی ریاست کا تذکرہ ہو گا وہاں نسل پرستی کا موضوع زیربحث آئے گا۔
صہیونی ریاست کے نسل پرست ملک ہونے کے بارے میں جو کچھ کہا اور لکھا جا رہا ہے اس میں ذرا بھی مبالغہ نہیں ہے۔ نسل پرستی کی جس پہلو سے بھی تعریف کی جائے اسرائیل اس پر پورا اترتا ہے۔ بین الاقوامی انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کے مرتکب ملک، گروپ اور طبقے کو نسل پرست کہا جاتا ہے۔ اس لیے صہیونی ریاست جس منظم طریقے سے عالمی قوانین کو دیوارپر مارتی چلی آ رہی ہیں اس کی نظیر بھی نہیں ملتی۔
صرف حکومت اور صہیونی فوج کی بات نہیں بلکہ صہیونی ریاست کے تمام ادارے حتیٰ کہ پارلیمنٹ بھی نسل پرست ہے۔ اسرائیلی پارلیمنٹ کے نسل پرست ہونے کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ کنیسٹ 72 نسل پرستانہ قوانین کی منظوری کے لیے کوشاں ہیں۔ ان میں سے کچھ قوانین منظور کیے جا چکے ہیں۔ کچھ پر بحث وتمحیص جاری ہے۔ کچھ کا مسودہ تیار کیا جا رہا ہے۔
صہیونی ریاست کی نسل پرستی کی بدترین مثال حال ہی میں عرب ارکان کنیسٹ کے خلاف منظور کردہ وہ قانون ہے جس کی آڑ میں عرب کمیونٹی کی نمائندگی کرنے والے ارکان کو سیاسی انتقام کی بھینٹ چڑھانے کی راہ ہموار کی گئی ہے۔
یہ قانون حال ہی میں منظور کیا گیا جس میں قرار دیا گیا ہے کہ اسرائیلی ریاست کے خلاف تشدد پر اکسانے اور فلسطینی تحریک آزادی کی حمایت کرنے والے کسی بھی عرب رکن پارلیمنٹ کی رکنیت منسوخ کرنے کے ساتھ اس کے خلاف سخت قانونی کارروائی عمل میں لائی جائے گی۔
یہ قانون ایک ایسے وقت میں منظور کیا گیا جب کئی عرب ارکان کنیسٹ صہیونی سیاسی جماعتوں کی جانب سے تنقید کا شکار ہیں اور ان پر الزام عاید کیا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کے خلاف فلسطینیوں کو تشدد پراکساتے ہیں۔
72 نسل پرستانہ قوانین
مرکزاطلاعات فلسطین نے صہیونی ریاست میں نسل پرستانہ نوعیت کی قانون سازی پر روشنی ڈالی ہے۔ رپورٹ میں ماہرین کی آراء کی روشنی میں بتایا گیا ہے کہ اسرائیلی کنیسٹ ایسے 72 نسل پرستانہ قوانین کی منظوری کی کوشش کر رہی ہے یا کرچکی ہے جن کا ہدف فلسطینی آبادی اور عرب شہری ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار برہوم جرایسی کا کہنا ہے کہ عرب ارکان کنیسٹ کی پارلیمنٹ کی رکنیت کی منسوخی نہ تو پہلا نسل پرستانہ قانون ہے اور نہ ہی یہ آخری قانون ہے۔ مارچ 2015ء سے جولائی 2016ء تک اسرائیلی پارلیمنٹ میں 72 نسل پرستانہ قوانین پیش کیے گئے۔ ان میں سے بعض کو منظور کیا گیا اور دیگر منظوری کے مراحل میں ہیں۔
جرایسی کا کہنا ہے کہ صہیونی پارلیمنٹ نے نسل پرستانہ قوانین کی منظوری کی جو مہم شروع کی ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی ہے۔ ایسے لگتا ہے کہ اسرائیل میں قانون سازی کے لیے فلسطینیوں اور عرب شہریوں کے خلاف انتقامی کارروائیوں کو فروغ دینے کے لیے قانون سازی کے سوا اور کوئی قانونی ضرورت ہی نہیں ہے۔ جس شدت اور زور کے ساتھ اسرائیلی پارلیمنٹ فلسطینیوں کے خلاف نسل پرستانہ قوانین کی منظوری دیتی چلی آ رہی ہے اس نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسرائیل سرتا پا ایک نسل پرست ریاست ہے۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ ویسے تو نسل پرستانہ پالیسیوں اور قانون سازی کی تاریخ صہیونی ریاست کے قیام کے ساتھ ہی شروع ہو گئی تھی مگر سنہ 1967ء کی چھ روزہ عرب اسرائیل جنگ میں اس نے غیرمعمولی شدت اختیارکی ہے۔ مقبوضہ فلسطین کے سنہ 1948ء کے عرب شہریوں کو پہلے ہی امتیازی سلوک کا سامنا تھا اور آئے روز امتیازی پالیسیوں میں بھی مزید شدت آتی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت صہیونی پارلیمنٹ 72 مختلف نسل پرستانہ قوانین کی منظوری کے مراحل میں ہے۔ ان میں سے 22 نسل پرستانہ قوانین منظور کیے جا چکے ہیں۔ 8 قوانین منظوری کے آخری مراحل میں ہیں۔6 قوانین کو ابتدائی منظوری کے مرحلے سےگذار دیا گیا ہے جب کہ 28 نسل پرستانہ قوانین آئندہ کے اجلاسوں کے شیڈول کا حصہ ہیں۔
فلسطینی تجزیہ نگار کا کہنا ہے کہ سنہ 2006ء سے 2009ء میں ایہود اولمرٹ کے دور حکومت میں 17 نسل پرستانہ قوانین پیش کیے گئے۔ ان میں سے چھ قوانین منظور ہوئے۔ سنہ 2009ء سے 2013ء کے دوران بنجمن نیتن یاھو کے پہلے دور حکومت میں 8 نسل پرستانہ قوانین منظور کیے گئے، دوسرے مرحلے کے آغاز کے ساتھ ہی 12 مزید امتیازی سلوک پر مبنی قوانین منظور کیے گئے جب کہ حالیہ دور حکومت میں 19 نسل پرستانی قوانین پیش کیے گئے ہیں۔
نمایاں نوعیت کے نسل پرستانہ قوانین
صہیونی ریاست میں نمایاں نوعیت کے نسل پرستانہ قوانین ایک قانون جیلوں میں صہیونی مظالم کے خلاف بہ طور احتجاج بھوک ہڑتال کرنے والے فلسطینی قیدیوں کو جبراً خوراک دینا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ اسرائیلی پارلیمنٹ نے فلسطینی نوجوانوں اور بچوں کی طرف سے سنگ باری کو بھی قابل سزا جرم قرار دیا اور اس جرم کی پاداش میں فلسطینیوں کو دہشت گرد قرار دے کر انہیں طویل عرصے کی قید کی سزائیں دینا یا جلا وطن کرنا شامل ہے۔
جرایسی کا کہنا ہے کہ صہیونی پارلیمنٹ کے آئندہ اجلاسوں میں 50 نسل پرستانہ قوانین منظور کیے جائیں گے۔ ان میں سے 16 نسل پرستانہ قوانین کا اطلاق غرب اردن کے علاقوں میں ہو گا۔
دو قوانین مسجد اقصیٰ میں یہودیوں کی مذہبی اجارہ داری کے حوالے سے منظور کیے گئے ہیں جن میں کہا گیا ہے کہ مسجد اقصیٰ میں یہودی آباد کاروں کو بھی مذہبی رسومات کا حق حاصل ہے۔
رپورٹ کے مطابق اسرائیلی پارلیمنٹ میں نسل پرستانہ قوانین پیش کرنے اور اسے منظور کرنے میں حکومتی اتحاد اور اپوزیشن سب برابر پیش پیش ہیں۔ اسرائیلی حکمراں جماعت لیکوڈ، ان کی شریک حکومت جیوش ہوم اپوزیشن کے صہیونیت کیمپ اور فیوچر جیسی جماعتیں نسل پرستانہ قوانین کی منظوری میں سر فہرست ہیں۔