اسلامی تحریک مزاحمت ’حماس‘ کے مرکزی رہ نما اور جماعت کے پارلیمانی بلاک کے رکن صلاح الدین بردویل نے کہا ہے کہ غاصب صہیونی دشمن کے خلاف مسلح جدوجہد جماعت کے سیاسی نظریے اور سیاسی پروگرام کا جزو لازم ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق غزہ کی پٹی میں ایک تقریب سے خطاب کرتےہوئے بردویل نے کہا کہ حماس نے مزاحمتی ثقافت کو راسخ کرنے کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ غاصب اور قابض دشمن کے خلاف مسلح جہاد کے سوا اور کوئی راستہ کارگر نہیں ہو سکتا۔ فلسطینیوں کے غصب شدہ حقوق کے حصول کے لیے مسلح مزاحمت ہی بہترین چارہ کار ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ حماس نے فلسطین میں مزاحمتی کلچر کو تقویت دی۔ پوری دنیا اس وقت ہم سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ ہم ’تشدد‘ یعنی مزاحمت ترک کریں۔ مگر ہم مزاحمت ترک نہیں کرتے۔ اس لیے ہمیں مارا جاتا ہے، ہم پر بمباری کی جاتی ہے اور ہمارا محاصرہ کیا جاتا ہے۔
صلاح الدین بردویل کا کہنا تھا کہ قریب وبعید، گروپ چار کی شرائط کے مطابق اور تنظیم آزادی فلسطین کی شرائط کے تحت مذاکرات کے حربے آزمائے گئے۔ ان تمام حربوں میں فلسطینیوں کے مطالبات اور حقوق کو سرسری انداز میں پیش کیا گیا۔ ان کے پس پردہ اصل مقصد مزاحمت ترک کرانے کی کوششیں کار فرما رہی ہیں۔ مگر ہم نے ہربار مزاحمت جاری رکھنے کے عزم کا اعادہ کرکے یہ ثابت کیا ہے کہ حماس کے اصول اٹل ہیں۔
حماس رہ نما کا کہنا تھا کہ فلسطینی قوم جانتی ہے کہ فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان نام نہاد مذاکرات کے 24 سال میں فلسطینیوں کو کچھ نہیں مل سکا۔ حتیٰ کہ فلسطینی اتھارٹی نے صہیونی ریاست کے ساتھ سیکیورٹی تعاون شروع کر کے مزاحمت کی روح کو کچلنے کی بھی کوشش کی مگر فلسطینی قوم نے یہ ثابت کیا ہے کہ مزاحمت کی سیاست ہمارے کلچر کا حصہ ہے۔ فلسطینی قوم مزاحمت سے دستبردار نہیں ہو سکتی۔