جمعه 15/نوامبر/2024

فرانسیسی امن اقدام کے امکانات، مثبت اور منفی پہلو!

جمعرات 14-جولائی-2016

فرانس کی جانب سے رواں سال جون میں مشرق وسطیٰ میں دیر پا قیام امن اورفلسطین۔ اسرائیل تنازع کے سیاسی حل پر زور دینے کے لیے بین الاقوامی مشرق وسطیٰ امن کانفرنس کا انتقاد کیا۔ اس کانفرنس میں بیس ممالک کے مندوبین کو مدعو کیا گیا تھا۔ کانفرنس میں فلسطینی اتھارٹی کے نمائندوں نے بھی شرکت کی۔ فلسطین کی بعض مذہبی اور سیاسی جماعتوں نے پیرس میں منعقدہ مشرق وسطیٰ امن کانفرنس کو اصل مسئلے سے توجہ ہٹا کرغیرضروری معاملات پر توجہ مرکوز کرانے کا بہانہ قرار دیا جب کہ اسرائیل نے بھی پیرس کے امن اقدام کی مخالفت کی۔

لبنان کے دارالحکومت بیروت میں قائم تھینک ٹینک’’زیتونہ مرکز مشاورت وسٹریٹیجک اسٹڈیز‘‘ نے فرانس کے مذکورہ امن اقدام کے مختلف پہلوؤں پر مسئلہ فلسطین کے معروضی حالات پر روشنی ڈالی ہے۔

’زیتونہ سینٹر‘ نے پیرس امن کانفرنس کے حوالے سے ایک تخمینہ اور جائزہ رپورٹ مرتب کی ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ پیرس کانفرنس بھی ماضی میں ہونے والے اس نوعیت کے ناکام تجربات میں ایک نئے اضافے کے سوا کچھ نہیں ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ فرانس کی میزبانی میں منعقدہ مشرق وسطیٰ امن کانفرنس کو خود یورپی ملکوں اور مغرب میں بھی وہ پذیرائی نہیں مل سکی جو ماضی میں اس طرح کی سرگرمیوں کو ملتی رہی ہے۔ اس طرح فرانس اس امن کوشش کے ذریعے اسرائیل پر خاطر خواہ دباؤ ڈالنے اور امن بات چیت کی بحالی پر تل ابیب کو مجبور کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے میں ناکام رہا ہے۔ امریکا جو مشرق وسطیٰ میں کسی سیاسی سمجھوتے کے لیے زور دیتا رہا ہے بھی فرانس کے امن اقدام کے حوالے سےغیر سنجیدہ دکھائی دیا۔ گوکہ فرانس کی جانب سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان دو طرفہ امن مذاکرات کی بحالی کے پرزور مطالبہ کیا گیا اور یہ کہا گیا کہ فریقین عالمی نگرانی میں براہ راست بات چیت کا آغاز کریں۔ مزید وقت کے ضیاع کے بجائے دونوں فریق اصل تنازع کے حل کے لیے سنجیدگی کا مظاہرہ کریں، مگر اسرائیل نے فرانس کے مطالبے کو کوئی خاص اہمیت نہیں دی۔ یہاں تک کہ اس کانفرنس کےدوران اور اس کے بعد بھی اسرائیل اپنی ہٹ ھرمی اور من مانی پالیسی پر قائم رہا ہے۔

ابتدائیہ:
فرانس کی جانب سے امن اقدام کا آغاز سنہ 2014ء میں اس وقت ظہور پذیر ہوا جب پیرس نے سلامتی کونسل میں ایک ایسی قرارداد لانے کی تجویز پیش کی جس کی منظوری کے ذریعے امن روڈ میپ کو آگے بڑھانے، بنیادی اصولوں اور عالمی معیارات کو سامنے رکھتے ہوئے امن بات چیت کی ضمانت کا مطالبہ کیا گیا۔ مگر امریکا اور اسرائیل نے ایسی کسی بھی قرارداد کو سلامتی کونسل میں پیش کرنے کی سخت مخالفت کی گئی، جس کے بعد پیرس کو سلامتی کونسل سے رجوع کا فیصلہ واپس لینا پڑا۔ برطانیہ اور جرمنی نے بھی ایسے کسی اقدام پر تحفظات کا اظہار کیا۔ خود فلسطینی اتھارٹی بھی سلامتی کونسل میں پیرس کی جانب سے قراراداد پیش کیے جانے پر تذبذب کا شکار دکھائی دی۔ فلسطینی اتھارٹی کی جانب سے یہ واضح کیا گیا کہ سلامتی کونسل میں پیش کردہ قرارداد میں ممکنہ طورپر اسرائیل کو یہودی ریاست کے طورپر تسلیم کیے جانے کا مطالبہ کیا جائے گا۔ فلسطینی اتھارٹی کے لیے ایسا کوئی مطالبہ قبول کرنا مشکل ہو گا۔ اگرچہ اس قرارداد کے بعض مثبت پہلو بھی تھے جن میں مذاکرات کے لیے ٹائم فریم اور حتمی معاہدے کے لیے متفقہ شیڈول کا اعلان جیسے نکات شامل تھے۔ اس کے علاوہ مذاکرات کی کامیابی کے لیے عالمی برادری کی ضمانت فراہم کرنے اور فریقین کو مقررہ وقت کے اندر معاہدہ کرنے کا پابند بنانے جیسی تجاویز شامل کی گئی تھیں۔ یہ بھی واضح کیا گیا کہ عالمی برادری کی مداخلت کے بغیر فلسطین۔ اسرائیل کم سے کم وقت میں کسی حتمی نتیجے تک پہنچنے میں کامیاب نہیں ہو سکتے۔

چونکہ فرانس کی جانب سے سلامتی کونسل میں مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے قرارداد پیش کئے جانے کی تجویز ناکام ہو چکی تھی اس لیے پیرس نے ایک نئے انداز میں امن اقدام کو آگے بڑھانے کا اعلان کیا۔

اول: اس سلسلے میں رواں سال فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کو شریک کیے بغیر ایک بین الاقوامی مشرق وسطیٰ امن کانفرنس کا انعقاد کیا گیا۔ تین جون کو ہونے والی پیرس امن کانفرنس میں مذاکرات کے سابقہ اصولوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایک بین الاقوامی گروپ تشکیل دینے سے اتفاق کیا گیا۔

دوم: پیرس کانفرنس کے انعقاد کے ساتھ علاقائی سلامتی اور اقتصادی تعاون کو موثر بنانے کے لیے ایکشن کمیٹیوں کا اعلان کیا گیا۔

فرانس کی جانب سے امن اقدام کو خاص پذیرائی نہ ملنے پر پیرس کوایک نئے انداز میں سوچنے پر مجبور ہونا پڑا۔ فرانس کو ایک طرف اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کی رضامندی اور خوش نودی حاصل کرنے کی کوشش کرنا پڑی اور دوسری جانب امریکا کو بھی امن اقدام کی حمایت پر قائل کرنے پر مجبور ہونا پڑا۔ اسرائیل کی مخالفت اور امریکا کی سرد مہری کے نتیجے میں فرانس کو اپنی امن تجاویز میں ترامیم کرنا پڑیں۔ جب فرانس سلامتی کونسل میں قرارداد لانے میں ناکام ہوا تو اس سے یہ بات ظاہرہو گئی کہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عالمی قوانین اور اقوام متحدہ کی سابقہ قراراردادیں اصل الاصول نہیں بلکہ جن نکات پر فریقین متفق ہوجائیں وہی اصول قرار پائے گا۔

فرانس کے امن اقدام کے آغاز ہی میں تمام عرب ممالک سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کریں تاکہ اسرائیل کو عرب امن فارمولے کو قبول کرنے کی حوصلہ افزائی کی جا سکے۔ یوں اسرائیل کا سنہ 1967ء کی جنگ سے پہلے والی پوزیشن پر واپس جانا عرب ممالک کی طرف سے اسرائیل کو تسلیم جانے سے مشروط ہے۔ اسی طرح فرانس نے یونیسکو میں مسجد اقصیٰ کے بارے میں ہونے والی رائے شماری میں حصہ لینے سے بھی معذرت کی ہے، تاہم بعد ازاں اپنے موقف میں تبدیلی کا بھی عہد کیا ہے اور کہا ہے کہ اگر آئندہ مسجد اقصیٰ کے حوالے سے کوئی رائے شماری ہوتی ہے تو پیرس اس میں حصہ لے گا۔

فرانسیسی حکومت کی جانب سے فلسطینی اتھارٹی کو بھی یہ تجویز پیش کی ہے کہ وہ یہودی آباد کاری روکنے کا معاملہ سلامتی کونسل میں اٹھانے سے گریز کرے کیونکہ اس طرح کے اقدامات امن عمل کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ اسی طرح فرانس کی حکومت نے اسرائیل کے عالمی سطح پر جاری معاشی بائیکاٹ مہم کو بھی تنقید کی نگاہ سے دیکھا ہے۔ پیرس نے صہیونی ریاست کے بائیکاٹ کی مہم کو غیرانسانی اور سام دشمنی کامظہر قرار دیا ہے۔

پیرس کانفرنس اورمایوسی کے بادل
فرانس میں تین جون کو منعقدہ ہونے والی مشرق وسطیٰ کانفرنس اپنے نتائج کے اعتبار سے نہایت مایوس کن رہی۔ فلسطینی اتھارٹی نےالزام عاید کیا کہ پیرس کانفرنس کے دوران امریکی وزیرخارجہ جان کیری نے ایک ناپسندیدہ فارمولا پیش کر کے اس کانفرنس کو ’ہائی جیک‘ کر لیا تھا۔ جان کیری نے تمام عرب ممالک پر زور دیا کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرتے ہوئے صہیونی ریاست کے ساتھ اقتصادی اور فوجی معاہدے کریں۔

اسی طرح کانفرنس کے اختتام پر جاری اعلامیے میں ٹھوس موقف اختیار کرنے کے بجائے پرانی باتوں کو نئے انداز میں دہرایا گیا۔ کوئی واضح اہداف مقرر کرنے، کوئی ٹائم فریم اور واضح ایجنڈا پیش کرنے کے بجائے صرف فریقین پر امن بات چیت کی بحالی کا مطالبہ کیا گیا۔ اس طرح فلسطینیوں اور مسئلے کے حل کے لیے سنجیدگی سے کوششیں کرنے والے حلقوں کو اس کانفرنس سے سخت مایوسی ہوئی۔

اعلامیے میں بعض سابقہ مطالبات کا تکرار دکھائی دیا۔ کانفرنس کے شرکاء نے مسئلہ فلسطین کے مستقل اور منصفانہ حل کے ساتھ ساتھ دو ریاستی حل پر زور دیا اور ساتھ ہی مسئلے کےحل نہ ہونے کے مضمرات سے بھی آگاہ کیا گیا۔ یہ واضح کیا گیا کہ موجودہ صورت حال قابل قبول نہیں۔ فریقین باہمی اعتماد سازی کے لیے ماحول ساز گار بنائیں، اسرائیل سنہ 1967ء سے قبل والی پوزیشن پر واپس جانے کی کوشش کرے۔ فریقین سلامتی کونسل کی قراردادوں 242 اور 338کی روشنی میں براہ راست مذاکرات بحال کریں اور حل طلب معاملات کے حل کی کوششیں تیز کریں۔

فلسطینی اتھارٹی سمیت تمام فریقین یہ بات بہ خوبی جانتے ہیں کہ اسرائیل کی موجودہ انتہا پسند برسراقتدار قیادت کی موجودگی میں فلسطین۔ اسرائیل تنازع کے حل کا امکان نہ ہونے کے برابر ہے کیونکہ اسرائیل کی موجودہ مقتدر اشرافیہ فلسطینیوں کے حقوق کو تسلیم کرنے کے بجائے ’عظیم تر اسرائیل‘ کے دعوے کو آگے بڑھانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی طرح علاقائی سطح پر جاری تبدیلی کی تحریکوں کی موجودگی اور فلسطینیوں کے اخلی انتشار کے ہوتے ہوئے بھی تنازع فلسطین کے حل کی کوششیں بار آور ثابت نہیں ہو سکتیں۔ اس وقت فلسطینی قیادت بھی منقسم ہے۔ تاریخی فیصلہ سازی کا فقدان مسئلہ فلسطین کو اور بھی پیچیدہ بنا رہا ہے۔

البتہ فرانس کانفرنس سے یہ بات ضرور ثابت ہوئی کہ مغربی دنیا اور یورپ دو ریاستی حل کے مطالبے پر یکسو ہیں۔ دنیا فلسطینیوں کی الگ مملکت کے قیام کے مطالبے پر قائم ودائم ہے۔ دو ریاستی حل کا فارمولہ ابھی زندہ ہے مگر موجودہ حالات اس فارمولے کو عملی شکل دینے کے لیے سازگار نہیں ہیں۔ ابھی ماحول کو ساز گار بنانے کے لیے مزید نامعلوم کتنا انتظار کرنا ہو گا۔ اگر خدا نخواستہ دو ریاستی حل کا فارمولہ موت سے ہمکنار ہوتا ہے تو خطے میں امن وآشتی اور استحکام کا خواب چکنا چور ہو گا۔ دہشت گردی کی ایک نئی لہر اٹھے گی اور ھجرت کا ایک نیا در کھل جائے گا۔

فرانسیسی امن اقدام پر متعلقہ حلقوں کا نقطہ نظر

فرانس کا نقطہ نظر
فرانس کا موجودہ نقطہ نظر ماضی کے نقطہ نظر سے کافی مختلف ہے۔ ماضی میں پیرس کی ہمدردیاں فلسطینیوں کی ساتھ دور حاضر کی نسبت زیادہ تھیں مگر اب فرانس کو اسرائیل کے زیادہ قریب دیکھا جا رہا ہے۔ شاید اس کی بنیادی وجہ فرانس کے مفادات ہیں اور فرانسیسی حکومتیں اپنے مفادات کے پیش نظر صہیونی ریاست سے زیادہ قریب ہیں۔ یہی وہ تخیل ہے جس نے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی فرانسیسی مساعی کو شکوک وشبہات کے پردے میں لپیٹ رکھا ہے جب کہ فرانس کا کہنا ہے جب کہ اسرائیل سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کرے گا اس وقت تک امن عمل کامیابی سے ہمکنار ہو سکتا ہے اور نہ ہی مسئلہ فلسطین کے حل کا کوئی معاہدہ ممکن ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ یہ امر بھی واضح ہونا چاہیے کہ فرانس مشرق وسطیٰ کے امور میں امریکا کا متبادل نہیں ہو سکتا۔ یہ بھی ہو سکتا ہے کہ امریکا کے مطالبے پر مشرق وسطیٰ میں قیام امن کے لیے دوسری امن کانفرنس امریکی صدارتی انتخابات کے بعد تک ملتوی کر دی جائے۔ جب امریکا میں نئی انتظامیہ کی تشکیل عمل میں آئے گی تو فلسطین، اسرائیل تنازع کو ایک نئے انداز میں ڈیل کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ البتہ اس عرصے میں فرانس کو اپنے مشرق وسطیٰ امن اقدام کے حوالے سے یورپی یونین کی حمایت حاصل کرنے کے وقت مل جائے گا۔

اسرائیل کا نقطہ نظر

فلسطینیوں کے ساتھ امن بات چیت کے حوالے سے اسرائیل کا نقطہ نظر عالمی برادری کے نقطہ نظر سے مختلف ہے۔ اسرائیل کا موقف ہے کہ وہ فلسطینیوں کے ساتھ انفرادی سطح پر براہ راست مذاکرت کرے جس میں کوئی تیسرا فریق موجود نہ ہو۔ ماضی میں اسرائیلی حکومتیں امریکا کی ثالثی کو بھی بادل نخواستہ ہی قبول کرتی رہی ہیں۔ اسرائیل کا یہ وہ موقف ہے جس نے فرانسیسی امن اقدام کو تل ابیب میں زیادہ اہمیت کا حامل نہیں ہونے دیا اور اسے مسترد کر دیا گیا۔ اسرائیل کی جانب سے فرانسیسی امن کوششوں کو مسترد کیا جانا ایک قسم کی بلیک میلنگ بھی ہے۔ اسرائیل یورپی یونین، فرانس امریکا اور تنازع کے حل کے خواہاں دوسرے ملکوں کو اپنی شرائط تسلیم کرانے کے لیے دباؤ میں لانا چاہتا ہے۔

اسرائیل کی جانب سے فلسطینیوں کے ساتھ تنازع کو علاقائی مسئلہ قرار دینے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے فلسطینیوں اور اسرائیل کے درمیان امن بات چیت میں ثالثی کی پیشکش کی تو فرانس کی نسبت مصری حکومت کی اس پیشکش کو اسرائیل کی جانب سے سراہا گیا۔

اسرائیل اپنے مفادات کے حصول کے لیے اس وقت ڈبل گیم کھیل رہا ہے۔ ایک طرف علاقائی عرب ملکوں سے تعلقات استوار کر کے ایرانی شیعی خطرات کی روک تھام کا حربہ استعمال کر رہا ہے اور دوسری طرف سنی مسلک کے انتہا پسند اور دہشت گرد گروپوں کی سرکوبی میں ان ملکوں کے ساتھ تعاون کی آڑ میں اپنے مفادات سمیٹ رہا ہے۔

ماضی کی اسرائیلی حکومتیں بھی فلسطینیوں کے ساتھ کسی معاہدے، مفاہمت یا ڈیل کو اس شرط کے ساتھ آگے بڑھاتی رہی ہیں کہ اس سے اسرائیل کے عرب ملکوں کے ساتھ تعلقات کے قیام کا راستہ ہموار ہو گا۔

اس کا اندازہ اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو کے اس بیان سے بھی ہوتا ہے جس میں انہوں نے کہا تھا کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے عرب ملکوں کے پیش کردہ روڈ میپ کو ترامیم کے بعد قبول کر سکتے ہیں۔ البتہ انہوں نے صاف الفاظ میں کہا کہ سنہ 1967ء سے قبل والی پوزیشن پر واپسی ممکن نہیں ہے۔ اسرائیل کو یہ بھی توقع ہے کہ عرب ممالک فلسطینی مہاجرین کی ان کے علاقوں میں واپسی کے مطالبے سے دستبرداری کا بھی اعلان کر سکتے ہیں کیونکہ پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کی قرارداد 194 پرعرب ممالک عمل درآمد کے حوالے سے زیادہ زور دیتے دکھائی نہیں دیتے۔

اسرائیل نے اپنے طور پر اور امریکا کی معاونت سے فرانسیسی امن فارمولے کو اپنی شرائط کے مطابق ڈھالنے کے لیے بھی مسلسل کوشاں رہا ہے۔ پیرس اجلاس میں عدم موجودگی کے باوجود اسرائیل نے یہ ثابت کیا ہے کہ اس کی موجودگی کے بغیر کوئی بھی امن فارمولہ اور کی منشاء کے بغیر قبول نہیں کیا جا سکتا۔

فلسطینی موقف

فرانس کی جانب سے مشرق وسطیٰ میں قیام امن کی مساعی کو فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے سراہا گیا۔ حالانکہ فلسطینی اتھارٹی کو یہ بہ خوبی علم ہے کہ اس طرح کی کوششیں ماضی میں بھی بہت ہو چکی ہیں۔ البتہ فرانس کے امن اقدام سے فلسطینی اتھارٹی جن متبادل اقدامات کے بارے میں غور کر رہی تھی ان پرعمل درآمد سے مجتنب رہی۔

فرانس میں ہونے والی امن کانفرنس پر فلسطینی اتھارٹی کی طرف سے خیرمقدم کیا گیا مگر خود فلسطینی مندوبین نے اس میں شرکت نہیں کی۔ جب تک اصل فریق شرکت نہیں کرے گا اس وقت تک کسی اہم پیش رفت کی توقع کیسے کی جاسکتی ہے۔ اگرچہ اس کانفرنس میں عرب اور دوسرے دوست ممالک نے شرکت کر کے فلسطینیوں کی نمائندگی ضرور کی مگر فلسطینی اتھارٹی کے مندوبین کی موجودگی کی اپنی اہمیت تھی۔

فلسطینیوں نے غاصب ریاست کے ناجائز قبضے اور مظالم کے خلاف طویل جدو جہد کی ہے۔ اس لیے فلسطینی اتھارٹی کا اس کانفرنس میں شرکت کرنا ضروری تھا۔ بالخصوص عرب ممالک کے اندرونی خلفشار میں فلسطینی اتھارٹی کی اس کانفرنس میں شرکت کی اہمیت اور بھی بڑھ گئی تھی۔ فلسطینیوں کو نظر انداز کر کے بھلا ان کے حقوق کا مقدمہ کیسے لڑا جا سکتا ہے۔ وہ اصل فریق ہیں جب تک وہ خود کسی امن فارمولے کا حصہ نہیں بنیں گے اس وقت ان کے حقوق پر بات کیسے کی جائے گی۔

امن اقدام کے مختلف پس منظر

عالمی کانفرنس کا عدم انعقاد
فرانسیسی امن فارمولے کا پہلا پس منظر مشرق وسطیٰ سے متعلق مزید کسی عالمی امن کانفرنس کا منعقد نہ ہونا ہے۔ اس کا امکان موجود ہے۔ اسرائیل کے پہلی امن کانفرنس میں شرکت کا بائیکاٹ کیا۔ امریکا کی طرف سے اسرائیل کو امن مساعی میں شمولیت کے لیے قائل کرنے کی سنجیدہ اور جاندار کوشش نہیں کی گئی۔ فرانس اور یورپی یونین بھی صہیونی ریاست پر دباؤ ڈالنے کی صلاحیت سے محروم رہے۔ برطانیہ کے یورپی یونین سے نکل جانے کے بعد یورپی یونین اپنے اندرونی مسائل میں الجھ کر رہ گئی ہے۔ یہ تمام پہلو امن مساعی پر منفی اثرات مرتب کرنے کا موجب بنے۔ اس ساری صورت حال سے اسرائیل کو موقف کو تقویت ملی۔

اگر امریکا میں ڈنلڈ ٹرمپ صدارتی الیکشن جیت کرامریکا کے صدر بن جاتے ہیں تو عالمی کانفرنس کا انعقاد اور بھی مشکل ہو جائے گا۔ امریکا کی موجودہ انتظامیہ اور صدر باراک اوباما مسئلہ فلسطین پر کوئی نیا فیصلہ صادر کرانے کے لیے سلامتی کونسل سے رجوع کے حق میں نہیں ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے صدر بننے کے بعد سلامتی کونسل سے رجوع کے بقیہ امکانات بھی معدوم ہو جائیں گے۔ ایسے حالات میں فلسطینیوں کے حقوق کی جنگ لڑنا اور بھی پیچیدہ ہو گی کیونکہ اسرائیل صہیونی لابی کی مدد سے اسرائیل کو یہودی ریاست کے طور پرتسلیم کرانے، جبل ھییکل[مسجد اقصیٰ] کی سیادت حاصل کرنے، اراضی کے تبادلے، مشرقی بیت المقدس کی یہودی کالونیوں کو اسرائیل میں ضم کرنے، غرب اردن کا ایک بڑا حصہ صہیونی ریاست میں شامل کرنے اور فلسطینی پناہ گزینوں کے حق واپسی کو ساقط کرنے کے مطالبات پیش کرے گا۔

دو طرفہ مذاکرات کے دوران عالمی کانفرنس
فرانس کی امن مساعی کا دوسرا پس منظر فلسطینی اتھارٹی اور اسرائیل کے درمیان براہ راست مذاکرات کی بحالی اور اسی دوران عالمی کانفرنس کا انعقاد ہے۔ اگر فلسطین۔ اسرائیل امن مذاکرات بحال ہو بھی جاتے ہیں تووہ ماضی کی نسبت زیادہ مشکلات کا شکار ہوں گے۔ اسرائیل اپنی نسل پرستانہ اور توسیع پسندانہ سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھے گا۔ مذاکرات کے لیے فلسطینیوں پر زیادہ کڑی شرائط عاید کی جائیں گی۔ ایسے میں امریکا، روس ، یورپی یونین اور اقوام متحدہ کا کردار بھی ماضی کے کردار سے مختلف نہیں ہو گا۔

مختصر لنک:

کاپی