جمعه 15/نوامبر/2024

صہیونی ریاست کی نظریں افریقی ممالک پر کیوں مرکوز ہیں؟

منگل 12-جولائی-2016

حال ہی میں اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاھو نے براعظم افریقا کے مختلف ممالک کا دورہ کیا۔ نیتن یاھو کے اس دورے کے درپردہ مقاصد کیا ہو سکتے ہیں؟ یہ سوال سب سے اہم ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ صہیونی ریاست فلسطینیوں کے خلاف جرائم میں ملوث ہونے کے باعث عالمی تنہائی کا سامنا کر رہی ہے۔ تنہائی کا احساس کم کرنے کے لیے نیتن یاھو افریقی ملکوں کو اپنے جال میں پھنسانے کے لیے کوشاں ہیں۔ عالمی سطح پر اسرائیل کے معاشی بائیکاٹ کی تحریک بھی زوروں پر ہے، جس  کے نتیجے میں صہیونی مصنوعات کی طلب میں غیرمعمولی کمی آ چکی ہے۔ ایسے میں تل ابیب  کو نئی منڈیوں کی تلاش ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ماہرین نے نیتن یاھو کے دورہ افریقا کے تین اہم مقاصد بیان کیے ہیں۔

مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق مبصرین کا کہنا ہے کہ بنجمن نیتن یاھو کے دورہ افریقا کے تین مقاصد میں پہلا مقصد اور ہدف سیکیورٹی سے متعلق تھا۔ دوسرا مقصد اقتصادی اور تیسرا سیاسی ہے۔ اسرائیل داخلی سطح پر اس وقت تحریک انتفاضہ القدس کا سامنا کر رہا ہے۔ تحریک انتفاضہ نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسرائیل داخلی سلامتی کے سنگین بحران سے دوچار ہے۔ تمام ترحربوں اور طاقت کے استعمال کے باوجود تحریک انتفاضہ کو کچلا نہیں جا سکا ہے۔ داخلی سطح پر نیتن یاھو کو اپنے عوام کے دباؤ کا بھی سامنا ہے کیونکہ موجودہ حکومت غزہ کی پٹی میں فلسطینی مزاحمت کاروں کے ہاں جنگی قیدی بنائے گئے اسرائیلی فوجیوں کو رہا کرانے میں ناکام رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ نیتن یاھو کو اسرائیلی عوامی حلقوں کی طرف سے سخت تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ اسرائیل کو درپیش داخلی بحرانوں میں سیاسی بحران بھی شامل ہے۔ اسرائیل کے سیاسی حلقے نیتن یاھو اور ان کے اتحادیوں سے سخت نالاں ہیں۔ کئی سرکردہ سیاسی جماعتیں نیتن یاھو کی مخلوط حکومت کا تختہ الٹںے کا باربار مطالبہ کرچکے ہیں۔

سیکیورٹی اور اقتصادی تعاون اولین ترجیح
اسرائیل کے عبرانی ٹی وی 2 نے نیتن یاھو کے دورہ افریقا کے بارے میں ایک رپورٹ پر روشنی ڈالی ہے اور ساتھ ہی بتایا ہے کہ ان کے اس دورے کا اولین مقصد سیکیورٹی اور اقتصادی بحرانوں سے نمٹنے میں مدد حاصل کرنا ہے۔ نیتن یاھو یوگنڈا کے دارالحکومت کامبالا میں پہنچے تو ان کا سرکاری سطح پر استقبال کیا گیا۔ یوگنڈا آمد کا مقصد 40 سال قبل ’’عنتیبی‘‘ نامی ایک کارروائی کے دوران نیتن یاھو کا بڑا بھائی ہلاک ہو گیا تھا۔

یوگنڈا اور دوسرے افریقی ملکوں کے دورے کے دوران نیتن یاھو کے بھاری بھرکم قافلے میں 80 اہم کاروباری شخصیات بھی شریک تھیں۔ اس موقع پر دونوں ملکوں کے درمیان دو طرفہ اقتصادی تعاون کے متعدد منصوبوں کی بھی منظوری دی گئی۔ اس دورے کے دوران  نیتن یاھو نے اوسطاً فی ملک 50 ملین شیکل کی سرمایہ کاری کی بھی منظوری دی۔

ٹی وی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ خاکی جزیرے کے دورے کے دوران نیتن یاھو کی توجہ سیکیورٹی اور اقتصادی تعاون کے منصوبوں پر مرکوز رہی۔ اس دورے نے دوطرفہ اقتصادی تعاون کے نئے راستے کھولے ہیں اور اسرائیل کو افریقی ملکوں کی اہمیت کا حقیقی معنوں میں اب اندازہ ہوا ہے۔ دوسری جانب تمام افریقی ممالک بھی  اسرائیل کے ساتھ اقتصادی اور سیکیورٹی سے متعلق شعبوں سمیت تمام دیگر شعبوں میں باہمی تعاون میں گہری دلچسپی لے رہے ہیں۔

افریقا کی طرف واپسی
عبرانی ٹی وی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ افریقی ملکوں کی سیاسی، اقتصادی اور سیکیورٹی اہمیت کے تناظر میں تل ابیب نے قرن افریقا کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کے باب کا آغاز کیا ہے۔ نیتن یاھو کا ابتدائی دورہ چند ایک افریقی ملکوں تک محدود تھا مگر وہ اگلے مرحلے میں 54 افریقی ملکوں کا دورہ کرنے کے ساتھ ساتھ دو طرفہ اقتصادی اور سیکیورٹی روابط بڑھانے پر توجہ دیں گے۔ افریقا کی طرف واپسی کے ساتھ ساتھ اسرائیلی حکومت لاطینی امریکا اور ایشیائی ملکوں کے ساتھ بھی تعلقات کی بحالی میں گہری دلچسپی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔

اسرائیلی وزیراعظم کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں بھی نیتن یاھو کے افریقی ملکوں کے دورے کے مقاصد کی وضاحت کی گئی ہے۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ  وزیراعظم اور ان کے ہمراہ آئے وفد نے کینیا اور ایتھوپیا میں مختلف تجارتی ورکشاپس میں شرکت کی اور مقامی تاجر برادری کے ساتھ بھی ملاقاتیں کیں۔ چار روزہ دورے کے دوران نیتن یاھو چار افریقی ملکوں کے رہ نماؤں سے ملے۔ نیتن یاھو کا اس بات کا احساس ہے کہ افریقی ممالک سے تعلقات کی بحالی صہیونی ریاست کو عالمی تنہائی، اقتصادی اور سیکیورٹی بحرانوں سے نجات دلانے میں مدد گار ہو سکتی ہے۔ کیونکہ سنہ 1994ء کے بعد کسی اسرائیلی وزیراعظم کا ان ملکوں کا پہلا دورہ ہے۔

تزویراتی ہدف
اسرائیلی تجزیہ نگار اور ہرٹزیلیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے ریسرچ فیلو عوفر یسرائیلی نے نیتن یاھو کے دورہ افریقا پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ افریقی ممالک اسرائیل کی تزویراتی پالیسی کا اہم ترین ہدف ہیں۔ اسرائیلی فیصلہ سازوں کی اولین ترجیح افریقی ممالک کی حکومتوں اور اقوام کے ساتھ دوستانہ تعلقات استوار کرنا ہے۔ اسرائیل دنیا بھرمیں اپنے تعلقات کا دائرہ وسیع کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ شمالی امریکا اور مغربی یورپ کے ساتھ دوستانہ تعلقات کے ساتھ ساتھ افریقی ممالک میں بھی اسرائیل کے دوستانہ مراسم کو بہتر بنانا ہے۔

یسرائیلی کا کہنا ہے کہ افریقی ممالک اور اسرائیل کے درمیان انٹیلی جنس کے شعبے میں تعاون بھی اہمیت کا حامل ہے۔ اب وقت آگیا ہے کہ تجارتی اور سیاسی تعاون کے ساتھ ساتھ تل ابیب افریقی ملکوں کے ساتھ دفاعی  امور میں بھی معاہدے کرے۔ اسلحہ کی خریدو فروخت کے بھی معاہدے کیے جائیں۔

پوشیدہ حکمت عملی
مرکزاطلاعات فلسطین سے بات کرتے ہوئے فلسطینی تجزیہ نگاروں نے صہیونی ریاست کے افریقی ملکوں کے ساتھ تعلقات کی بحالی کے درپردہ مقاصد پر روشنی ڈالی۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ اسرائیل کا سب سے اہم ہدف اور مقصد فوج اور سیکیورٹی سے متعلق امور میں افریقی ملکوں کا تعاون حاصل کرنا ہے۔ افریقی ملکوں کے ساتھ اسرائیل کے تعلقات کی بحالی کا تھیٹر ایک ایسے وقت میں لگا ہے جب جنوبی  افریقا کو بیرون ملک اسرائیلی فوجی سرگرمیوں کا سب سے بڑا مرکز قرار دیا جا رہا ہے۔ اسرائیل تمام افریقی ملکوں کے ساتھ اپنے فوجی اور سیکیورٹی تعلقات مضبوط بنا کر ان ممالک کو اپنے چنگل میں پھنسانے کے لیے کوشاں ہے۔ اس طرح اسرائیل اپنا اسلحہ اوردیگر جنگی سازو سامان کے لیے افریقی ملکوں کو ایک نئی منڈی بنانا چاہتا ہے۔

حال ہی میں مرکزاطلاعات فلسطین نے اپنی رپورٹ میں انکشاف کیا تھا کہ اسرائیل نے اریٹیریا میں بحر احمر کے کنارے ایک نئی رصدگاہ قائم کی ہے جس کا مقصد یمن کی باب المندب بندرگاہ اور دوسرے علاقائی ملکوں کی بحری ٹریفک پر نظر رکھنا ہے۔

تجزیہ نگاروں کے مطابق نیتن یاھو افریقی ممالک پر مشتمل ایک نیا اتحاد قائم کرنا چاہتا ہے کو افریقی خطے میں صہیونی ریاست کے مفادات کا تحفظ کرسکے۔ فلسطینیوں کے خلاف جاری صہیونی مظالم کی مذمت کا سلسلہ بند ہو اور افریقی ملکوں کو اسرائیلی مصنوعات اور اسلحہ کی ایک نئی منڈی بنایا جاسکے۔

چونکہ افریقی ممالک فلسطینیوں کی حق خود ارادیت کے پرزور حامی رہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ افریقی ریاستوں کی طرف سے صہیونی ریاست کے مظالم کی مذمت اور فلسطینیوں کے بنیادی حقوق کی کھل کر حمایت کی جاتی رہی ہے۔ اگر اسرائیل افریقی ممالک کو اپنے مفادات کے کھونٹے سے باندھ دیتا ہے تو ان ملکوں کی طرف سے فلسطینیوں کے حقوق کے حوالے سے صہیونی ریاست پر دباؤ میں خاطر خواہ کمی آ سکتی ہے۔

مختصر لنک:

کاپی