اسرائیلی کنیسٹ [پارلیمنٹ] نے ایک نئے مسودہ قانون کی منظوری دی ہے جس میں قرار دیا گیا ہے کہ جو شخص گرین لائن کے اندر رہنے والے عیسائیوں کو اسرائیلی فوج میں بھرتی ہونے سے روکنے کی مہم چلائے گا اسے جیل کی سزا کاٹنا ہو گی۔
اسرائیل کے عبرانی اخبار’ہارٹز‘ نے اپنی رپورٹ میں بتایا ہے کہ پارلیمنٹ کی قانون ساز کمیٹی کی طرف سے پیش کردہ مذکورہ مسودہ قانون پر ابتدائی رائے شماری کی گئی۔ اس قانون میں کہا گیا ہے کہ گرین لائن کے[سنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں رہنے والے] عیسائیوں کو فوج میں بھرتی ہونے سے روکنے یا فوج کی خدمت ترک کرنے پر اکسانے والے کو جیل بھیجا جائے گا۔
مسودہ قانون میں فوج میں بھرتی سے روکنے کی مہم چلانے والے کو اس کے جرم کی نوعیت کے مطابق تین سے 15 سال تک قید کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مذکورہ قانون میں قرار دیا گیا ہے کہ فوج سے فرار اختیار کرنے والوں کو پناہ دینا اور ان کی مدد کرنا بھی فوج میں خدمات روکنے کے مترادف ہے۔ فوج میں خدمات انجام دینے کے خلاف مہم چلانے والے فوج کے ادارے میں پھوٹ ڈالنے کے جرم کے مرتکب ہو رہے ہیں۔
خیال رہے کہ اسرائیلی فوج کوگرین لائن قرار دیے جانے والے فلسطینی علاقوں میں رہنے والے عرب اور عیسائی شہریوں کو بھرتی کے سلسلے میں کافی مشکلات کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ آئے روز عیسائی شہریوں کی جانب سے فوج میں خدمات انجام دینے سے انکار کی خبریں آتی ہیں۔
دوسری جانب عرب کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے رکن کنیسٹ اسامہ السعدی نے اسرائیلی پارلیمنٹ کی جانب سے منظور کردہ قانون کی مذمت کرتے ہوئے اسے آزادی اظہار رائے پر ایک نئی قدغن قرار دیا ہے۔