فلسطین کے مقبوضہ بیت المقدس میں قائم اسرائیل کی ایک مجسٹریٹ عدالت نے گرفتار کی گئی ایک مقامی فلسطینی معلمہ کو مشروط طور پر رہا کرنے کے بعد اگلے دس روز تک گھر پر نظر بند رکھنے کا حکم دیا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق خدیجہ خویص کو بیت المقدس کی ایک مجسٹریٹ عدالت کے حکم پر کل منگل کو رہا کیا گیا مگر اسرائیلی عدالت نے انہیں 10 دن تک گھر پرنظر بند رکھنے کے ساتھ ساتھ مسجد اقصیٰ میں داخلے پر دو ماہ کی پابندی بھی عاید کی گئی ہے۔ نیز ان کی رہائی 2000 شیکل ضمانت پرعمل میں لائی گئی۔
انسانی حقوق کی تنظیم’ہمارا القدس برائے انسانی حقوق‘ کے مندوب اور قانون دان بکر جبارین نے بتایا کہ اسرائیلی حکام کے پاس خدیجہ خویص کو حراست میں رکھنے اوران کے خلاف مزید تفتیش کا کوئی جواز نہیں تھا۔ اسرائیلی فوج اور پولیس نے ان پر جتنے بھی الزمات عاید کیے تھے وہ سب جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ اس کے باوجود اسرائیلی عدالت نے خویص کو مشروط طور پر رہا کیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی عدالت نے خویص کو 2000 شیکل ضمانت پر رہا کیا ہے اور ساتھ ہی حکم دیا ہے کہ انہیں اگلے 10 دن تک بیت المقدس میں ان کے آبائی قصبے الطور میں واقع رہائش گاہ پر نظربند رکھا جائے۔ اس کے علاوہ ان کے مسجد اقصیٰ میں داخلے پر 60 دن کی پابندی بھی عاید کی گئی ہے۔
اسرائیلی حکام کی جانب سے خدیجہ خویص کے شوہر اور یونیورسٹی کے پروفیسر ابراہیم ابو غالیہ کو بھی حراست میں لے رکھا تھا۔ بعد ازاں انہیں بیت المقدس سے بے دخل کر دیا گیا۔ خدیجہ خویص کےسنہ 1948ء کے مقبوضہ فلسطینی شہروں میں داخلے پر180 دن کی پابندی بھی عاید کی گئی ہے۔