ترکی نے فلسطین کے بارے میں اپنی پالیسی کی وضاحت کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسرائیل سے سفارتی تعلقات کی بحالی کو فلسطین بارے پالیسی میں تبدیلی پر محمول نہ سمجھا جائے۔ انقرہ کی فلسطین پالیسی تبدیل ہوئی ہے اور نہ ہی آئندہ ایسا ہوسکتا ہے۔
مرکزاطلاعات فلسطین کے مطابق ترک ایوان صدر کے ترجمان ابراہیم قالن نے ایک بیان میں کہا ہے کہ انقرہ کا فلسطین بارے موقف ناقابل تغیر ہے۔ اسرائیل اور ترکی کے درمیان سفارتی مفاہمت کو فلسطین بارے پالیسی میں تبدیلی نہ سمجھا جائے۔
انقرہ میں ایک کتاب میلے کے دوران خطاب کرتے ہوئے ترک حکومت کے ترجمان نے کہا کہ مقبوضہ فلسطین پر اسرائیلی ناجائز قبضے کے خلاف ان کا ملک آواز بلند کرتا رہے گا کیونکہ ترکی سمجھتا ہے کہ اسرائیل نے فلسطینی علاقوں پر غیرقانونی اور ناجائز قبضہ جما رکھا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ غزہ کی پٹی کے عوام کی معاشی حالت کی بہتری کے لیے بھی اقدامات کیے جائیں گے۔ اس کے ساتھ ساتھ آزاد اور مکمل طورپر خود مختار فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے بھی جدو جہد جاری رکھی جائے گی۔
ابراہیم قالن کا کہنا تھا کہ فلسطینی مظلوم عوام کے بنیادی حقوق اور ان کے مطالبات پر کوئی سودے بازی نہیں کی جائے گی۔ اسرائیل کو مقبوضہ فلسطینی علاقوں سے اپنا تسلط ختم کرنا ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ ترکی۔ اسرائیل سفارتی روابط کی بحالی سے مسئلہ فلسطین کے حل کے لیے ترکی کو مزید موثر کردار ادا کرنے کا موقع ملے گا۔
خیال رہے کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان 31 مئی 2010ء کو اس وقت سفارتی کشیدگی پیدا ہوئی تھی جب اسرائیلی بحریہ نے غزہ کی پٹی کا معاشی محاصرہ توڑنے کے لیے آنے والے ترکی کے بحری جہاز مرمرہ پرحملہ کرکے نو ترک کارکنوں کو شہید اور پچاس سے زاید کو زخمی کردیا تھا۔ اس واقعے پرترکی کی حکومت نے اسرائیل سے سفارتی تعلقات ختم کرلیے تھے۔ حال ہی میں اسرائیل نے ترک کارکنوں پر حملے پر انقرہ سے باضابطہ معافی مانگنے کے ساتھ ساتے حملے کے متاثرین کو 21 کروڑ ڈالر ہرجانہ ادا کرنے کا اعلان کیا ہے۔